"DRA" (space) message & send to 7575

پاک بھارت مذاکرات: وقت کی اہم ضرورت

28 نومبر کو نارووال کے قریب کرتار پور‘ ڈیرہ بابا نانک کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک دفعہ پھر بھارت کو متنازع مسائل‘ جن میں کشمیر بھی شامل ہے، کے حل کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی‘ اور اپنی پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس جانب اگر بھارت ایک قدم اُٹھاتا ہے تو پاکستان دو قدم آگے بڑھنے کیلئے تیار ہے‘ لیکن بھارت نے اس پیشکش کا مثبت جواب دینے کی بجائے نہ صرف بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے سے انکار کر دیا بلکہ پاکستان میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کو بھی خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے کرتار پور کوریڈور کی تعمیر کے موقع پر پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی توقعات اور امیدوں کو چکنا چور کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں بھارت کے موقف کو ایک دفعہ پھر دہراتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب تک اُن کے بقول پاکستان بھارت کے خلاف دہشت گردی سے باز نہیں آتا، نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرتار پور کوریڈور کی تعمیر شروع کرنے پر دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے وفود نے جن امیدوں اور توقعات کا اظہار کیا تھا، وہ دور تک پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بدستور کشیدہ رہیں گے اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے آر پار ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ ہوتی رہے گی۔ اب تو اس میں بڑے ہتھیار یعنی دور مار توپیں بھی استعمال ہو رہی ہیں‘ جن سے سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ میلوں دور پیچھے ہٹ جانے کے باوجود محفوظ نہیں ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سکول بند ہیں۔ مکانات خالی ہیں اور متاثرہ آبادی اپنے مال مویشی اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں یا کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہے۔ 
پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ اس صورت حال جسے ''نہ جنگ اور نہ امن‘‘ کی کیفیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، کو کب تک برداشت کر سکتی ہیں‘ کیونکہ اس میں صورتحال کے مزید خراب ہونے اور ایک بڑے تصادم کی شکل اختیار کرنے کا اندیشہ موجود ہے۔ اور اگر یہ صورتحال ایک بڑے تصادم یا جنگ میں تبدیل نہ ہو‘ تب بھی موجودہ سطح پر پاک بھارت کشیدگی، دونوں ملکوں کے عوام کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے کیونکہ کشیدہ تعلقات ہونے کی وجہ سے باہر کی دنیا میں خطے کے بارے میں غیر یقینی اور عدم تحفظ کی فضا قائم ہو گی۔ اس فضا میں کوئی بھی ملک جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا اور اگر سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو معیشت کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ اور معیشت میں بہتری کے بغیر پاکستان میں غربت کے خاتمے کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون بڑھانے کی بار بار پیشکش کی وجہ بھی دراصل یہی ہے‘ کیونکہ بقول عمران خان دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے ہاں غربت ختم کرنا چاہتی ہیں۔ 
غربت ان ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں غریب لوگوں کی تعداد اتنی نہیں‘ جتنی جنوبی ایشیا میں ہے لیکن غربت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ معاشی ترقی کے عمل کی رفتار تیز نہ ہو۔ اس کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ امن، استحکام اور سکیورٹی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی قائم رہی تو نہ صرف دونوں عدم استحکام کا شکار ہوں گے بلکہ خطے میں غیر یقینی فضا بھی قائم رہے گی۔ کرتار پور کی تقریر میں پاکستان کی طرف سے بھارت کو واضح پیغام تھا ''اگر عوام کو غربت سے باہر نکالنا مشترکہ مقصود ہے تو امن کی فضا اور تعاون کا ماحول لازمی ہے‘‘۔ پاکستان اور بھارت اگر محاذ آرائی کی پالیسی ترک کرکے دوستی اور تعاون کی راہ اختیار کریں‘ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹا دیں‘ باہمی تجارت کو فروغ دیں، تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کی رائے میں دونوں ملکوں کے اندر معاشی ترقی کا عمل تیز ہو سکتا ہے بلکہ بعض معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی اُس وقت تک صلاحیت حاصل نہیں کر سکتی‘ جب تک وہ بھارت کے ساتھ تجارت کا آغاز نہ کرے۔ اس حقیقت کے باوجود بھارت کی طرف سے مذاکرات سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے‘ اگر نیت ٹھیک ہو اور ارادے پکے ہوں تو بڑے سے بڑا اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہے اس پر پاکستان اور بھارت کے موقف میں بہت فاصلہ ہے لیکن اگر دونوں ملکوں کی قیادتیں اس کے لیے کمربستہ ہو جائیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے موجودہ وقت موزوں ترین ہے کیونکہ حکومت، سیاسی پارٹیاں اور عسکری قیادت اس لمحے ایک ہی پیج پر ہیں۔ ان کی طرف سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، وہ پائیدار ثابت ہو گا اور اسے قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے گیند بھارت کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور پاکستان کو انتظار ہے کہ وہ کب اس کا جواب دیتا ہے۔ اگر ہم گزشتہ سات دہائیوں کے تجربات کو پیش نظر رکھیں تو بلا کسی حیل و حجت کے کہنا پڑے گا کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کے حل کے حق میں نہیں یا وہ اس مسئلے کا ایسا حل چاہتا ہے جو اس کے موقف اور مفادات کے مطابق ہو۔ مگر کشمیر میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت سے علیحدگی اور آزادی سے کم کسی حل پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ بھارت نے پاکستان کو بیچ میں سے نکال کر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی اب تک بڑی کوششیں کیں مگر سب کی سب ناکام ہوئیں۔ بھارتی حکومت ریاست میں انتخابات کا اہتمام کرکے اپنے موقف کے حق میں قانونی جواز پیش کرنا چاہتی ہے‘ لیکن وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں نے ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارتی موقف کی نہ کوئی بنیاد ہے اور نہ اس کا کوئی جواز ہے۔ انہی حقائق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پہلے کرتار پور میں کوریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اپنی تقریر میں اور پھر گزشتہ روز اسلام آباد میں بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنا مشکل سہی، مگر ناممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت نا صرف اس کا حل نکال سکتے ہیں بلکہ اس کا حل نکالنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ کرتار پور میں خطاب اور اسلام آباد میں بھارتی صحافیوں سے گفتگو‘ دونوں مواقع پر وزیر اعظم نے کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا وہ کئی لحاظ سے منفرد اور اہم ہے مگر ان بیانات کا ایک پہلو غور طلب ہے۔ یہ کہ دونوں مواقع پر کشمیر کے کسی مخصوص حل کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ پاکستان کا سرکاری اور مستقل موقف یہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی قابل قبول ہو گا۔ وزیراعظم نے یہ نہیں کہا بلکہ جو کچھ کہا وہ حقیقت پسندی پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ یہ کہ اس موقع پر یہ کہنا کہ کشمیر کا یہ حل ہے‘ مناسب نہ ہو گا۔ مگر اس کا حل نکل سکتا ہے اور وہ صرف اس صورت ممکن ہے جب دونوں ممالک اس مقصد کیلئے مذاکرات کا آغاز کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اولین ترجیح کشمیر کی موجودہ صورتحال کو ڈی فیوز کرنا اور پھر مذاکرات کا آغاز ہے۔ میرے خیال میں یہی ایک درست راستہ ہے اور اس راستے پر چل کر پاکستان اور بھارت کشمیر جیسے دیرینہ اور مشکل مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کا اس پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ اگر پہلے کی طرح بھارت نے اس دفعہ بھی سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی جانب سے ایک انتہائی لچک دار رویے کے جواب میں بھی منفی اور غیر لچک دار موقف اختیار کیا تو یہ نا صرف خطے بلکہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی ایک بڑی بدقسمتی ہو گی‘ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم باہمی تنازعات کے حل کا ایک نہایت مناسب موقع گنوا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں