"DRA" (space) message & send to 7575

حکومت، اپوزیشن اور جمہوریت

جمہوریت خصوصاً پارلیمانی جمہوریت کو ایک ایسی گاڑی سے تشبیہہ دی جاتی ہے جس کا ایک پہیہ حکومت اور دوسرا اپوزیشن ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان جب تک ربط نہ ہو تو گاڑی یعنی جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ کاش یہ عام فہم بات تحریک انصاف کی موجودہ وفاقی حکومت کی سمجھ میں جلد آ جاتی تو تین چار ماہ قوم کو تذبذب میں نہ گزارنا پڑتے۔ جمہوریت صرف وہ الفاظ نہیں جو ایک آئین میں لکھے ہوتے ہیں‘ بلکہ اچھی اور صحت مندانہ روایات بھی جمہوریت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ برطانیہ کا تو سارا سیاسی نظام ہی روایات پر مبنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا ایک تحریری آئین ہے اور ایک ایسے ملک کے لیے جہاں اداروں کے درمیان دائرہ اختیار پر جھگڑوں کا احتمال ہو، یا شہریوں کے حقوق پر انتظامیہ کے ڈاکے کا خطرہ ہو اور جہاں وفاقی اکائیوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پر اختلاف کا اندیشہ ہو، ایک تحریری آئین اور اس کی تشریح کیلئے ایک آزاد عدلیہ کی موجودگی لازمی ہے اور کسی بھی قسم کے ابہام کو دور کرنے کے لیے ان سب معاملات پر اتفاق رائے کو آئین کی شقوں کی صورت میں تحریری شکل میں محفوظ کر لیا جاتا ہے‘ لیکن جمہوری روایات ، بے شک وہ غیر تحریری شکل میں ہی کیوں نہ ہوں، کی اہمیت کم نہیں ہوتی‘ بلکہ جمہوری کلچر‘ جو کہ ایک رسمی جمہوریت کو مستحکم بنانے کیلئے ضروری ہے‘ میں اس قسم کی روایات کی موجودگی اور اُسے پروان چڑھانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ 
پاکستان جیسے ملکوں‘ جن میں جمہوریت ابھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے، کو اس قسم کی روایات کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت‘ جہاں جمہوریت نے اپنے سفر کا آغاز ہمارے ساتھ ہی کیا تھا، میں بہرحال چند جمہوری روایات نے جڑ پکڑنا شروع کر دی ہے۔ مثلاً پاکستان کے برعکس بھارت میں وزیراعظم کا تقرر، ایوانِ زیریں میں انتخابات سے نہیں ہوتا بلکہ بھارتی صدر کو وزیراعظم نامزد کرنے کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے۔ بھارت کے ہر پارلیمانی انتخاب کے بعد، صدر یہ اختیار استعمال کرتا ہے اور عام طور پر اُس پارٹی کے سربراہ کو مرکز میں حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی ہے جس نے انتخابات میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہوں۔ بھارتی آئین کے تحت صدر کسی اور پارٹی یا ایسی پارٹیوں کے اتحاد کے سربراہ کو حکومت سازی کی دعوت دے سکتا ہے جسے اُس کے خیال میں ایوان کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو سکتی ہو‘ لیکن صدر ہمیشہ اُس پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کے سربراہ کو حکومت کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے جس نے لوک سبھا میں اکثریت حاصل کی ہو۔ بھارت میں اس روایت پر تسلسل سے عمل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پارلیمانی انتخاب کے بعد حکومت سازی کا عمل احسن طریقے سے مکمل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تعاون کی بجائے محاذ آرائی کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے اور اسی کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی کئی دفعہ بریک ڈائون کا شکار ہوتی رہی ہے۔ یا اسے اگر کبھی سفر جاری کرنے کا موقعہ ملا تو ہمیشہ رُک رُک کر چلتی رہی ہے۔ اسی مقصد کیلئے کہ جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے، مشرف کے آمرانہ دور کے خاتمہ کے بعد اس روایت کو قائم کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) جس میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں طرف سے ممبران شامل ہوتے ہیں، کی سربراہی، قائد حزب اختلاف کے پاس ہوگی۔ یہ روایت آئین کا حصّہ نہیں ہے‘ مگر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان تعاون اور بہتر تعلقات کی خاطر اس پر 2008ء سے 2018ء تک عمل کیا جاتا رہا۔ تاہم 2018ء کے انتخابات کے بعد جب مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تشکیل پائی تو اس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے تو برملا کہا تھا کہ شہباز شریف کو کسی قیمت پر پی اے سی کا چیئر مین مقرر نہیں کیا جائے گا۔ اپنے مؤقف کے حق میں انہوں نے دو دلیلیں پیش کیں۔ ایک یہ کہ شہباز شریف کا تعلق ایک ایسی پارٹی سے ہے، جس کے دور کا آڈٹ نئی کمیٹی کرے گی‘ اور چونکہ آئین کے مطابق نئی کمیٹی کا کام وہیں سے شروع ہوگا جہاں سیّد خورشید شاہ کی صدارت میں پرانی کمیٹی نے چھوڑا تھا، اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیا چیئر مین اپنی ہی پارٹی کے دورِ حکومت کا منصفانہ آڈٹ کر سکے گا؟ دوسرے وزیراعظم نے شہباز شریف کو نیب زدہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بیان ایک ایسے موقعہ پر دیا جب قائد حزب اختلاف نیب کی حراست میں ہیں‘ اور اُنہیں سپیکر کے حکم پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا موقعہ ملتا ہے‘ لیکن وزیراعظم صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دو ماہ حراست میں رکھنے کے باوجود نیب اب تک شہباز شریف کے خلاف کسی ایک کیس میں بھی شواہد عدالت میں پیش نہیں کر سکا۔ حکومت نے اس معاملے میں اتنا سخت مؤقف اپنایا ہوا تھا کہ وزیراعظم نے قانون سازی کے عمل کو چالو کرنے کیلئے حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی پر مشتمل اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیاں قائم کرنے یا صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینے کی دھمکی بھی دے دی تھی‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے یہ بیان بغیر آئین پڑھے دیا تھا‘ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کے عمل کو محدود کر دیا گیا ہے۔ انہیں یہ جاننے میں کچھ دیر لگی کہ کوئی بھی حکومت اپوزیشن کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتی اور خصوصاً ایسی صورت میں جہاں حزب اختلاف اور حکومت کے اسمبلی میں ووٹوں کے درمیان چھ سات کا فرق ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔ اس طرح سینیٹ میں کسی بل کی منظوری کیلئے، حکومت دو تہائی تو بڑی دور کی بات ہے، سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر قانون سازی کے عمل کے راستے میں ان مشکلات سے ہر پڑھا لکھا شخص واقف تھا۔ اخبارات کے اداریئے اور ٹی وی ٹاک شو میں شریک ہر تبصرہ نگار کی زبان پر بھی ان معاملات کا ذکر عام تھا۔ ہاں ''نا واقف‘‘ تھے تو تحریک انصاف والے اور خود وزیراعظم صاحب‘ جن کے ہاتھ میں 22 کروڑ آبادی کے اس ملک کو چلانے کیلئے عوامی مینڈیٹ ہے۔ یعنی بقول میر تقی میر:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی لُغت میں ''حزبِ اختلاف‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ صرف مخالف اور مد مقابل بلے باز کا تصّور ہے‘ جس کی وکٹ اُڑانا واحد ٹارگٹ ہو۔ اور وزیراعظم عمران خان تو ایک بال کے ساتھ ساری وکٹیں اڑانے کے ارادے کا اعلان کر چکے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کے ذہن میں تعاون یا مل کے چلنے کا خیال نہیں آتا۔ بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کے میدان میں بھی کھیل کے میدان کی طرح واحد مقصد وکٹیں اڑانا ہے۔ یہ دلیل بھی کوئی وزن نہیں رکھتی کہ اپوزیشن کا پی اے سی کمیٹی کی چیئر مین شپ کے مسئلے پر مؤقف دراصل احتساب سے بچنے کی ایک کوشش ہے۔ حکومت خود بارہا اپنے اس مؤقف کو دہرا چکی ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے‘ حکومت کا اُس پر نہ تو کوئی دبائو ہے اور نہ شریف برادران کے خلاف موجودہ مقدمات سے اُن کا کوئی تعلق ہے۔ یہ کہہ کر حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ احتساب کے عمل کا حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات سے کوئی تعلق نہیں‘ یعنی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر محاذ آرائی، احتساب کا سبب نہیں، تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون احتساب کا راستہ کیسے روک سکتا ہے؟ اس لیے کہ احتساب ایک آزاد عمل ہے جو بقول پی ٹی آئی ایک آزاد ادارے نے شروع کر رکھا ہے۔ اپوزیشن کیسے توقع کر سکتی ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہونے سے اُن کے خلاف احتساب کا عمل رک جائے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف والوں کو حکومت تو مل گئی ہے مگر اسے چلانے کے لیے جن آئینی اور قانونی طریقہ ہائے کار اور ضابطوں کی جانکاری کی ضرورت ہے‘ وہ ان کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسئلے پر غیر لچک دار رویہ اختیار کر کے بالآخر وہ فیصلہ کرنا پڑا، جسے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مثبت یوٹرن کا نام دیا ہے یعنی ڈھائی تین ماہ کی ''نہ ‘ نہ‘‘ کے بعد آخر کار شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئر مین بنانا پڑا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں