"DRA" (space) message & send to 7575

افغان مذاکرات

وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے مذاکرات کے موجودہ سلسلے کو آگے بڑھانے میں پوری پوری مدد کرے گا۔ وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے موقعہ پر آیا ہے، جب امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امن کی ان کوششوں میں تیزی آ گئی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کے نمائندوں سے بات چیت کے دو راؤنڈز کے بعد، زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان کے وفد سے ابوظہبی میں بھی بات چیت کی۔ بات چیت میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ مذاکرات میں پاکستان کی براہ راست شمولیت اور سعودی عرب اور متحدہ امارات کی شرکت ایک اہم پیش رفت ہے۔ مذاکرات کو قطر سے متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کا مقصد بھی غالباً یہی تھاکہ ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شرکت کو ممکن بنایا جا سکے‘ کیونکہ اس وقت قطر کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ امارات‘ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ قطر نے دوحا سے ابوظہبی مذاکرات کی منتقلی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اس کا مقصد قطر کو اس عمل سے الگ کرنا ہے‘ لیکن قطر کی ناراضگی سے قطع نظر ان مذاکرات میں طالبان کو جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے افغان مسئلے کی حل کی ترغیب دینے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ امارات کی شرکت بہت مؤثر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ مذکورہ دونوں ملکوں کے ساتھ طالبان کے بڑے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے صرف تین ممالک میں سعودی عرب اور متحدہ امارات بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ امارات طالبان کیلئے مالی امداد کا بھی ایک اہم ذریعہ رہے ہیں اور اب جبکہ افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی کے بعد اس کی تعمیر نو اور بحالیات کیلئے مطلوبہ فنڈز کی بھی بات ہو رہی ہے تو سعودی عرب اور متحدہ امارات اس کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ دونوں ممالک کی شرکت کے نتیجے میں ان مذاکرات کی کامیابی کی زیادہ اُمید کی جا سکتی ہے تاہم ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد افغانستان کا مسئلہ ایک پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس کی کئی جہتیں ہیں اور اس میں کئی سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگرچہ ابھی تک مذاکرات میں زیر بحث آنے والے مسائل کو صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے، تاہم جو خبریں باہر آئی ہیں، اُن کے مطابق امریکہ ابتدائی قدم کے طور پر کم از کم چھ ماہ کیلئے جنگ بندی کا خواہاں ہیں‘ تاکہ پرامن ماحول میں مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا جا سکے لیکن طالبان رضامند نظر نہیں آتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لڑائی کے میدان میں طالبان کا پلہ بھاری ہے اور اُنہیں جنگ بندی پر مجبور کرنے والے کسی دباؤ کا سامنا نہیں۔ اس کی بجائے افغان طالبان اپنے پرانے موقف پر قائم ہیں اور وہ یہ ہے کہ امریکہ صاف بتائے کہ وہ کب افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹے گا۔ طالبان نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ براہ راست صرف امریکی مذاکراتی ٹیم سے ہی بات چیت کریں گے اور کسی قیمت پر کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے علاوہ طالبان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اُن کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے‘ اور دہشت گردی کے الزام میں اُن کے جن رہنماؤں کی نقل و حرکت اور پھر اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں، اُنہیں ختم کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ طالبان فوری طور پر نہ صرف چھ ماہ کیلئے جنگ بندی پر رضامند ہو جائیں بلکہ افغان حکومت سے بھی بات کریں‘ اُن کے ساتھ حکومت میں شامل ہو جائیں اور افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کر لیں۔
فریقین کے موقف کے درمیان اتنا بُعد ہے کہ مصالحت کا امکان نظر نہیں آتا‘ لیکن درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے اور سعودی عرب اور متحدہ امارات کو بیچ میں لانے کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امریکہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ذریعے طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ اگر وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست آمنے سامنے بات چیت کرنے پر رضامند نہ بھی ہوں تو بالواسطہ طور پر افغان حکومت کا نمائندہ وفد مذاکرات میں شرکت کر سکتا ہے۔ طالبان کو بالآخر اس پر راضی ہونا پڑے گا کیونکہ گزشتہ سترہ برس افغان طالبان حکومت سے باہر رہے ہیں۔ اس عرصہ میں افغانستان کے موجودہ آئین کے تحت کئی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ افغانستان میں جمہوریت جڑیں پکڑ چکی ہے‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 17برسوں کے دوران ایسے عناصر‘ گروپ اور طاقتیں جنم لے چکی ہیں جن کا مستقبل جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ ان تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ افغان طالبان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ افغان فوج اور امریکیوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘ کیونکہ امریکہ ایسا کسی حال میں نہیں ہونے دے گا۔ اس لیے ایسی صورت حال کے پیدا ہونے کا بہت کم امکان ہے جو 1974ء میں ویت نام میں یا 1989ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں جنگ بندی کے حق میں ہے اور اس بات کی خواہشمند بھی کہ مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے جس میں فریقین کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا جائے لیکن وہ (بین الاقوامی برادری) اور خود امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے عامہ، افغانستان کے مسئلے کے ایک ایسے حل کی کبھی حمایت نہیں کرے گی جس سے افغانستان میں طالبان کی ایک ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو، جیسی 2001 سے پہلے افغانستان میں برسر اقتدار تھی۔ طالبان کے اُس دور میں عورتوں اور اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی اس طرح برملا پامالی کی گئی تھی کہ اس حکومت کو دنیا میں صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا‘ جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔
اس وقت مذاکرات اگرچہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہو رہے ہیں اور ان میں پاکستانی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی شریک ہیں لیکن ان کا دائرہ وسیع کرنا پڑے گا‘ کیونکہ موجودہ افغان حکومت کو اس سے الگ تھلگ نہیں رکھا جا سکتا۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات کا بھی یہ موقف ہے امریکہ کسی قیمت پر افغان حکومت کی رضامندی کے بغیر طالبان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا‘کیونکہ اس اقدام سے خطے میں امریکہ کی کریڈیبلٹی (Credibility) کو سخت نقصان پہنچے گا۔ امریکہ 1989ء والی غلطی نہیں دہرائے گا‘ جب روسی افواج کے انخلا کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد وہ افغانستان کو انارکی کے حوالے کر کے غائب ہو گیا تھا۔ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے افغانستان میں ان عناصر اور حلقوں کی خیر سگالی کی ضرورت ہوگی، جن کا تعلق ایک جمہوری اور لبرل افغانستان سے ہے۔ افغانستان میں امن اور استحکام کے ساتھ اس کے ہمسایہ ممالک مثلاً ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے علاوہ چین، روس اور بھارت کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔ اگر افغانستان پر موجودہ مذاکرات میں پیش قدمی ہوتی ہے تو آئندہ کسی مرحلے پر ان تمام ممالک کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ اگرچہ امریکہ ایران، روس اور چین کو، اور پاکستان بھارت کو افغان مسئلے کے حل سے دور رکھنا چاہتا ہے، لیکن افغانستان میں جنگ بندی ‘ قیام امن اور استحکام کی ضمانت صرف ایک علاقائی فورم سے ہی دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگ بندی کے بعد افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل کو کامیاب بنانے کیلئے ان ممالک کے تعاون کی ضرورت ہوگی‘ جو سرمایہ کاری، تجارت اور مشترکہ اقتصادی منصوبوں میں تعاون کے ذریعے ایک پرامن افغانستان کی بڑی مدد کر سکتے ہیں۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے‘ اُس نے افغانستان کو سی پیک کا حصہ بنانے اور اس کے ذریعے وسطی ایشیا میں پاکستان کی رسائی کوممکن بنانے کی پہلے ہی پیشکش کر رکھی ہے۔ افغانستان کا موجودہ مسئلہ ایک ایسے حل کا متقاضی ہے جسے طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہو، بلکہ افغانستان کے اردگرد واقع تمام ممالک کا تعاون بھی اسے حاصل ہو۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے آگے بڑھنے کی صورت میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک چین اور روس بھی ایک مرحلے پر ان مذاکرات کا حصہ بن جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں