حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں دو اہم فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ پہلا ‘ شام سے 2000 امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ ہے اور دوسرا افغانستان میں موجود اپنی 14000فوج میں سے آدھی کو واپس بلانے کا اعلان۔ امریکی صدر کے ان اعلانات سے نہ صرف امریکی انتظامیہ، سکیورٹی حلقوں اور وزارت دفاع یعنی پینٹاگون میں کھلبلی مچ گئی ہے بلکہ امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی پریشان ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر امریکہ ان فیصلوں پر ثابت قدم رہتا ہے اور ان پر عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، تو مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے حوالے سے بڑے دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ان فیصلوں کا اعلان اچانک کیا ہے اور ایسا کرنے سے قبل نہ تو انہوں نے اپنی کابینہ کے ارکان اور نہ ہی اپنے اتحادی ممالک سے مشورہ کیا‘ بلکہ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کے سکیورٹی مشیران اور ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس نے فوری طور پر ٹرمپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ٹرمپ نے اُن کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ اس پر ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس نے اپنا استعفیٰ صدر کے حوالے کر دیا۔ صدر ٹرمپ کا موقف خصوصاً شام سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے بارے میں یہ ہے کہ امریکہ نے وہاں اپنی فوجیں ''اسلامی خلافت‘‘ یعنی آئی ایس (داعش) کو شکست دینے کیلئے بھیجی تھیں اور اب جبکہ ''داعش‘‘ کو عراق اور شام میں تقریباً شکست ہو چکی ہے اور اُن کے قبضہ میں بہت کم علاقہ رہ گیا ہے، تو شام میں امریکی افواج کے مزید قیام کا کوئی جواز نہیں۔ افغانستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ صدارتی مہم کے دوران انہوں نے افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امریکی افواج کو واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا، اس لئے اُس وعدے کے تحت اب باقی ماندہ امریکی افواج کے انخلا کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے 2014ء میں افغانستان سے ایک لاکھ امریکی فوج کو واپس بلا لیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں پر مختلف حلقے اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع اور امریکہ کے یورپی اتحادی صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں پر خوش نہیں۔ اُن کے خیال میں امریکی صدر کے ان اقدامات سے شام اور افغانستان میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ مثلاً شام سے اگر امریکی افواج نکل جاتی ہیں تو ''داعش‘‘ اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر سکتی ہے‘ میدان جنگ میں شکست کھانے کے باوجود ''داعش‘‘ کے بچے کھچے اراکین مجتمع ہو کر دوبارہ ایک بڑے خطرے کی صورت اختیار کر سکتے ہیں لیکن بعض عالمی حلقے مثلاً ایران اور ترکی شام سے امریکی افواج کے نکل جانے پر خوش ہیں کیونکہ امریکہ شام میں ''داعش‘‘ کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت اور ترک مخالف کرد ملیشیا کی حمایت کر رہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کا فیصلہ بھی ترک صدر طیب اردوان کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر نے اپنے امریکی ہم منصب کو 2015ء میں شام میں امریکی افواج بھیجنے کے بارے میں اُ نہی کا ایک بیان یاد دلایا‘ جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ شام میں امریکی فوج بھیجنے کا واحد مقصد ''داعش‘‘ کے خلاف جنگ جیتنا ہے‘ اور کہا کہ اب جبکہ ''داعش‘‘ کو تقریباً مکمل شکست ہو چکی ہے تو شام میں امریکی فوج کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟ اس پر امریکی صدر لاجواب ہو گئے اور انہوں نے ترک صدر سے گفتگو کے دوران شام سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ سنا دیا۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر امریکی محکمہ دفاع کے علاوہ اسرائیل بھی پریشان ہے کیونکہ شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد اسرائیل کی نظر میں ایران کی شام میں پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے حال ہی میں ترکی کا دورہ کیا ۔ انقرہ میں انہوں نے اپنے ترک ہم منصب صدر اردوان سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے شام میں قیام امن کیلئے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح افغانستان سے آدھی فوج واپس بلانے کے فیصلے کو طالبان نے سراہا ہے اور اسے ایک ایسا مثبت قدم قرار دیا ہے جس سے باہمی اعتماد کو تقویت ملے گی‘ مگر افغان حکومت اور افغان فوج کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ میدانِ جنگ میں پہلے ہی طالبان کامیابی پر کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے حملوں سے افغان فوج اور پولیس کو ایسا نقصان پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ جنگ میں موثر مزاحمت پیش کرنے کے قابل نہیں۔ پاکستان نے بھی افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے‘ حالانکہ پاکستان کا شروع سے موقف یہ رہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج کو واپس بلانے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے‘ بلکہ طالبان کے ساتھ سمجھوتے کا ایک حصہ ہوتے ہوئے یہ قدم افغانستان میں امن و امان کے قیام کی تسلی بخش صورت حال کے بعد اٹھانا چاہئے۔ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں‘ اگرچہ افغانستان میں امریکہ کی مستقل عسکری موجودگی کے خلاف ہیں لیکن وہ بھی افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اس طرح نہیں چاہتے جیسا صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس سے افغان فوج اور سکیورٹی فورسز‘ جو پہلے ہی طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے دباؤ تلے تشویشناک حد تک جانی نقصان برداشت کر رہی ہیں‘ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اگر افغانستان سے امریکی افواج فوراً چلی جائیں تو اس سے ملک میں اسی طرح انارکی پیدا ہونے کا خطرہ ہے جس طرح 1989ء میں سابق سوویت یونین کے انخلا کے بعد پیدا ہوئی تھی‘ لیکن افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی، افغانستان میں قیام امن کے سمجھوتے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے کیونکہ جیسا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ طالبان کا سب سے پہلا مطالبہ ہے اور وہ اس پر کسی قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد افغانستان پر امن مذاکرات کے آگے بڑھنے اور طالبان کے ساتھ کسی قسم کے حتمی سمجھوتے کے امکانات بڑھ گئے ہیں لیکن اس سے یہ ہرگز مطلب اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ امریکہ شام سے اپنی پوری اور افغانستان سے آدھی فوج نکال کر علی الترتیب مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیا سے دستبرداری کا اعلان کر رہا ہے۔ مذکورہ بالا اقدامات سے ان علاقوں میں امریکہ کی سکیورٹی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ بحر روم میں چھٹے اور خلیج فارس میں اس کے پانچویں بحری بیڑے، جن میں تباہ کن اور گائڈڈ میزائل جہازوں کے علاوہ طیارہ بردار جہاز بھی شامل ہیں، کی موجودگی میں امریکہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے کسی حصے کو نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ افغانستان میں وہ طالبان کے خلاف افغان فوج کو مدد بھی فراہم کر سکتا ہے۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کہہ چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی اس وقت تک ختم نہیں کرے گا، جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ افغانستان کی سرزمین کو اس کے خلاف دہشت گدی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار میں ایک لمبے عرصے کے لئے فوجی لحاظ سے موجود رہنے کی تیاریاں کر رہا ہے اور امریکہ اس کی اشد ضرورت اس لئے بھی محسوس کرتا ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ خطہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے دن بدن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر اس خطے کی سلامتی کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ شام سے امریکی فوج کے انخلا اور افغانستان سے امریکی افواج کی آدھی تعداد کو واپس بلانے کے اقدامات کو ان دونوں علاقوں میں امریکی حکمت عملی میں ایک ایڈجسٹمنٹ تو قرار دیا جا سکتا ہے، مگر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔