"DRA" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات

بنگلہ دیش میں حال ہی میں ایسے پارلیمانی انتخابات ہوئے کہ ہارنے والوں سے جیتنے والے زیادہ حیران اور مشوش نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے 300 کی پارلیمنٹ میں سے 288نشستیں حاصل کر کے اپنے حامیوں اور مخالفین‘ دونوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہارنے والی مخالف سیاسی جماعت یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اس بات پر سراپا احتجاج ہے کہ حکومت نے قدم قدم پر راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اُس کو ہرایا ہے۔ بی این پی کی قائد بیگم خالد ہ ضیاء جیل میں بدعنوانی کے الزام میں 17سال قید کی سزا بھگت رہی ہیں۔ انتخابات سے قبل حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ میڈیا والوں کا الزام ہے کہ اُنہیں ڈرایا، دھمکایا گیا اور حالات کی صحیح رپورٹنگ کرنے سے روکا گیا۔ اگرچہ عوامی لیگ کی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے؛ تاہم امریکہ اور یورپی یونین نے اپوزیشن کے ان الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں انتخابات کے موقعہ پر سیاسی درجہ حرارت ہمیشہ زیادہ رہا ہے اور پارلیمانی انتخابات کبھی پرامن نہیں ہوئے؛ تاہم اس دفعہ ریکارڈ اموات ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش کے اپنے ذرائع کے مطابق 17افراد تشدد میں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 7کا تعلق حکمران سیاسی جماعت عوامی لیگ سے ہے۔ تقریباً 97 فیصد پارلیمانی نشستیں حاصل کر کے عوامی لیگ‘ جس کی بنیاد حسین شہید سہروردی نے 1948ء میں رکھی تھی، کی لیڈر اور موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد چوتھی دفعہ اپنا عہدہ سنبھالیں گی۔ اس کے مقابلے میں خالدہ ضیا کی بی این پی‘ جو 1991ء اور 2001ء میں برسراقتدار رہ چکی ہے، کو صرف 6نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس پر بی این پی کے حلقوں نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلہ دیش ون پارٹی رُول کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خود عوامی لیگ کے کارکن یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اتنی کمزور اپوزیشن جمہوریت کیلئے سودمند نہیں۔ اُن کے خیال میں 300اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ میں کم از کم 50-60کا تعلق اپوزیشن سے ہونا چاہئے تھا۔ اس طرح جمہوریت توانا‘ اور ملک میں سیاسی استحکام برقرار رہتا ہے‘ لیکن بیشتر مبصرین کے مطابق اپوزیشن کی اس حالت کی ذمہ داری بہت حد تک خود بی این پی پر بھی عائد ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بی این پی کا ووٹ بینک، عوامی لیگ سے زیادہ تھا۔ اس کی بنیاد پر بی این پی نے پندرہ برس بنگلہ دیش پر حکومت کی‘ لیکن پچھلے یعنی 2014ء کے انتخابات کے موقعہ پر بی این پی نے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ مبصرین کے مطابق بی این پی کا یہ اقدام سیاسی خودکشی کے مترادف تھا کیوں کہ پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر قابض ہو کر عوامی لیگ کو پانچ برس تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس دور میں عوامی لیگ نے نہ صرف اپنے آپ کو سیاسی طور پر مستحکم کر لیا بلکہ بنگلہ دیش کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر بھی ڈالا۔ عالمی بینک کے مطابق 2016ء میں بنگلہ دیش میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سالانہ اضافے کی اوسط رفتار 7.1فیصد تھی، جو علاقے میں دوسرے نمبر پر تھی۔ خیال ہے کہ 2017ء میں یہ رفتار 7.3 فیصد تھی۔ ترقی کی رفتار میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور عنقریب بھارت سے بھی آگے نکل جائے گا۔ جہاں تک فی کس جی ڈی پی کا تعلق ہے، ماہرین کے مطابق آئندہ دو برس میں اس شعبے میں بھی بنگلہ دیش پاکستان سے آگے نکل جائے گا۔ نہ صرف قومی پیداوار میں اضافے کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش کی دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے، بلکہ صحت، خصوصاً بچوں اور عورتوں کی صحت اور تعلیم میں بھی بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت سے آگے ہے۔ ان شعبوں میں بنگلہ دیش کی کامیابیوں کی وجہ سے، ملک میں اوسط عمر 72سال تک پہنچ گئی ہے‘ جبکہ پاکستان میں یہ عمر 66اور بھارت میں 68برس ہے۔ بنگلہ دیش میں اقتصادی اور سماجی شعبوں میں کامیابی کا سہرا شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی حکومت کے سر جاتا ہے‘ جس نے عورتوں خصوصاً نوجوان لڑکیوں کی فنی استعداد بڑھا کر انہیں ایک کارآمد ورک فوری میں تبدیل کر دیا۔ اس سے نہ صرف غربت میں کمی ہوئی بلکہ قومی معیشت بھی توانا ہوئی۔ اس وقت بنگلہ دیش کی‘ آبادی میں پاکستان سے کم ہونے کے باوجود‘ برآمدات پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کی معیشت میں گارمنٹس انڈسٹری کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور اسی کی بنیاد پر بنگلہ دیش اس وقت دنیا کی دوسری تیزی سے فروغ پذیر معیشت ہے اور بہت جلد یہ متوسط خوشحال ملکوں کی صف میں جا کھڑا ہوگا۔ معاشی ترقی اور سماجی بہبود کے شعبوں میں کام کر کے حسینہ واجد نے اپنے ملک کے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ غیر ملکی مبصرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی محاذ آرائی کے باوجود معیشت اور عوامی بھلائی، خصوصاً عورتوں اور بچوں کی بہبود پر توجہ مرکوز کر کے حسینہ واجد بنگلہ دیش کی مقبول ترین وزیراعظم بن چکی ہیں اور حالیہ انتخابات میں اُن کی فقیدالمثال کامیابی انہی خدمات کی رہین منت سمجھی جاتی ہے۔ مگر مخالفین کی نظر میں حسینہ واجد تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں مرتکز کر کے آمرانہ روش اختیار کر چکی ہیں۔ میڈیا پر پابندی، سیاسی مخالفین کی وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور پُرامن احتجاج کو ریاست کی قوت سے پورے زور کے ساتھ دبا دینا، چند مثالیں ہیں جن سے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کے آمرانہ رویے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ 
بنگلہ دیشی اپوزیشن نے اسی لئے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ انتخابات‘ جو مکمل طور پر یک طرفہ ہیں، کو منسوخ کر کے انہیں ایک غیر جانبدار حکومت کی زیر نگرانی منعقد کروایا جائے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کی طرح پارلیمانی انتخابات ایک نگران سیٹ اپ کے تحت منعقد کروانے کا طریقہ مستعمل تھا۔ ایک غیر جانبدار اور نگران حکومت کے زیر اہتمام پارلیمانی انتخابات کروانے کا طریقہ 1990ء کی دہائی میں اختیار کیا گیا تھا‘ لیکن عوامی لیگ اس کی سخت مخالف تھی۔ 2011ء میں پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے اس سسٹم کو ختم کر دیا۔ پارلیمنٹ کے اقدام سے قبل بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ اسے خلاف آئین قرار دے چکی تھی۔ 2014ء اور اب 2018ء کے پارلیمانی انتخابات بغیر نگران حکومت کے کروائے گئے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ ایک غیر جانبدار اور نگران حکومت کے زیر اہتمام انتخابات کروانے کے پرانے طریقے کو پھر سے رائج کیا جائے‘ لیکن ان انتخابات کے نتائج کے بعد اس امر کا بہت کم امکان ہے کہ نگران سیٹ اپ کو دوبارہ بحال کیا جا سکے‘ کیونکہ عوامی لیگ شروع سے ہی اس کی مخالف تھی۔ 
بنگلہ دیش کے تازہ ترین پارلیمانی انتخابات اگرچہ متنازعہ ہیں کیونکہ عوامی لیگ کی حکومت نے اپوزیشن کو آزادی کے ساتھ ان میں شرکت کی اجازت نہیں دی؛ تاہم اس بات سے بہت کم لوگ اختلاف کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد ان تبدیلیوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ نہ صرف اندرونی محاذ بلکہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی شیخ حسینہ واجد نے اپنے سابقہ ادوار میں ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے، بنگلہ دیش، جو ایک موقعہ پر دنیا بھر میں ''باسکٹ کیس‘‘ سمجھا جاتا تھا، کو دیگر اقوام کی صفوں میں ایک ممتاز مقام دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی میں شیخ حسینہ واجد کی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے علاوہ ٹھوس اور دور اندیشی پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی اور سماجی اصلاحات پر مبنی پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں