کیا پاکستان اور امریکہ تعلقات میں یوٹرن آنے والا ہے؟ گزشتہ تقریباً دو برس کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو پالیسی اختیار کیے رکھی ہے اور اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے، اُس سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ اب پاک امریکہ تعلقات میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ لیکن صدر ٹرمپ کے تازہ ترین بیان سے اُمید بندھی ہے کہ دونوں ممالک میں ایک دفعہ پھر تعاون اور مفاہمت کی فضا پیدا ہو جائے گی۔ اپنے تازہ ترین بیان میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کی نئی حکومت کے رہنماؤں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ یہ ملاقات جلد ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایک سرپرائز سے کم نہیں۔ کیوں کہ پچھلے سال انہی دنوں میں ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں پاکستان پر امریکہ سے دغا بازی اور دوغلے پن کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر افغانستان میں امریکی فوجوں سے برسرپیکار افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ سے پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد پر فل سٹاپ لگا دیا تھا بلکہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے جب پاکستان کی مالی مشکلات میں کمی کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امریکہ نے اس عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان کی امداد سے منع کر دیاتھا۔ اس وقت بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کسی پیکیج پر اتفاق نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ امریکہ کے ایماء پر آئی ایم ایف پاکستان سے کڑی شرائط منوانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جب سے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے پاکستان کے متعلق امریکہ نے بھی اپنے رویے میں نرمی ظاہر کرنا شروع کر دی ہے۔ صدر ٹرمپ کا تازہ بیان اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے قبل جب امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے امن مشن پر پاکستان آنا تھا تو اس وقت بھی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط بھیجا تھا۔ اگرچہ اس خط کے مندرجات کو پبلک نہیں کیا گیا تھا، تاہم اس کے حوالے سے جو معلومات منظر عام پر آئی تھیں، اُن کے مطابق صدر ٹرمپ نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی تھی کہ زلمے خلیل زاد کے قیادت میں افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے، امریکہ نے جس مشن کا آغاز کیا ہے پاکستان اس کی کامیابی کیلئے تعاون کرے۔ یعنی پاکستان میں دہشت گردوں کی مبینہ ''محفوظ پناہ گاہیں‘‘ ختم کر کے طالبان کو امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے آمادہ کرے۔ اس خط اور اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ زلمے خلیل زاد کی بات چیت کے بعد دبئی میں افغان مذاکرات کا دور ہوا تھا جس میں امریکہ اور طالبان کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وفود نے بھی شرکت کی تھی۔ اگرچہ دبئی مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان کے مسئلے پر کوئی ڈرامائی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی‘ کیونکہ طالبان نے افغان حکومت کے وفد کے ساتھ ملنے سے انکار کر دیا تھا، جبکہ امریکہ کا اصرار تھا کہ طالبان کو نہ صرف افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے، بلکہ افغانستان میں رائج الوقت سیاسی اور آئینی نظام کا حصہ بھی بننا پڑے گا، تاہم دبئی مذاکرات، دوحہ مذاکرات کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ مثبت، حوصلہ افزاء اور تعمیری ثابت ہوئے کہ تمام فریقوں نے انہیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس وجہ سے امریکہ اگرچہ ان مذاکرات سے مکمل طور پر مطمئن تو نہیں، لیکن خوش ضرور ہے‘ کیونکہ امن مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے، جو امید ہے اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ فریقوں کے درمیان افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امن قائم کرنے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو جاتا۔ امن مذاکرات کے اس عمل کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کا نہ صرف پاکستان نے دعویٰ کیا ہے بلکہ امریکہ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ ایک عرصے سے پاکستان سے ''ڈومور‘‘ کا جو مطالبہ کر رہا تھا، اس پر عمل درآمد کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کی پالیسی میں نرمی اور لچک کے آثار بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاک، امریکہ تعلقات میں بہتری کے امکانات میں بھی اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر پاک، امریکہ تعلقات بہت ہی پیچیدگیوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔یہ پیچیدگیاں آسانی سے دور ہونے والی نہیں۔ دونوں میں بداعتمادی کی ایک وسیع خلیج حائل ہے جو آسانی سے اور جلد پاٹنے والی نہیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے دونوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے بارے میں بلکہ اہم علاقائی مسائل پر بھی اپنے اپنے مؤقف میں بنیادی تبدیلی لانا پڑے گی۔
سب سے اہم مسئلہ افغانستان کا ہے۔ امریکہ افغانستان سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے اور اُس کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اُس کی مدد کرے۔ یعنی پاکستان نہ صرف طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے، بلکہ ایک ایسا سیاسی سمجھوتہ طے کرنے میں مدد بھی کرے جس کے تحت افغانستان میں جنگ بند ہو جائے، امریکی فوجیں واپس چلی جائیں، لیکن افغانستان میں امریکی مفادات بھی محفوظ رہیں۔ مگر پاکستان کی اس سلسلے میں چند مجبوریاں بھی ہیں۔ افغان شہری اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں مختلف مقاصد کے لیے آتے جاتے ہیں۔ ایک سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے خود کہا تھا کہ افغان طالبان کے بعض رہنما اپنے اہل خانہ سے ملاقات یا بوقتِ ضرورت علاج معالجہ کیلئے پاکستانی شہروں‘ جن میں کوئٹہ اور کراچی بھی شامل ہیں، میں آتے رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک افغانستان میں جاری موجودہ جنگ کا تعلق ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں پاکستان افغان طالبان کا ہاتھ روک سکتا ہے کیونکہ افغان طالبان پاکستان کے اثر و رسوخ سے بہت حد تک آزاد ہیں۔ دبئی مذاکرات میں جب چھ یا تین ماہ کیلئے فائر بندی کی تجویز پیش کی گئی تو طالبان نے انکار کر دیا اور پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات کا دباؤ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح ٹرمپ اپنی سابقہ پالیسی پر مُصر ہیں کہ بھارت کو افغانستان میں ایک بڑا کردار ادا کرنا چاہئے، جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ اسی طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ نوعیت کے بھی کئی مسائل اور رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنا اتنا آسان نہیں۔ مثلاً امریکہ کو پاکستان کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دینے کے منصوبے پر سخت اعتراض ہے۔ امریکہ اور بھارت کے سٹرٹیجک تعلقات میں جتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر جس طرح امریکہ اور بھارت کی سوچ اور حکمت عملی ایک ہوتی جا رہی ہے، پاکستان کو اس بات پر سخت تشویش ہے لیکن اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ امریکہ پاکستان کی خاطر، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی کر دے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ممبئی حملوں یا پٹھان کوٹ کے واقعہ کے معالات کے حوالے سے دباؤ ڈالا جائے۔ اس لئے ٹرمپ کا تازہ ترین بیان اگرچہ امید افزاء ہے‘ مگر پاک امریکہ تعلقات میں جو پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں ان کے پیش نظر ان کو نارمل ہونے میں وقت لگے گا‘تاہم ٹرمپ کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکہ کو پاکستان، اور پاکستان کو امریکہ کی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے ضرورت ہے۔ اور یہی اصول آئندہ ان ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔