تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تازہ ترین کوشش تعطل کا شکار ہو گئی ہے اور اس کی وجہ طالبان کی طرف سے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں شرکت سے انکار بتائی جاتی ہے۔ اس سے قبل خبر آئی تھی کہ دسمبر میں دوحہ اور پھر دبئی میں امریکی اور افغان طالبان کی نمائندہ ٹیموں کے درمیان بات چیت کے دو ادوار کے بعد جنوری میں اسلام آباد میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش زلمے خلیل زاد کی طرف سے کی گئی تھی اور اس سلسلے میں خلیل زاد ایک انٹر ایجنسی وفد کے ہمراہ جمعہ 18جنوری کو اسلام آباد پہنچے تھے۔ اُن کے وفد میں جو دیگر اعلیٰ امریکی حکام شامل ہیں اُن میں لیزا کرئسی بھی ہیں جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک سفیر آفیسر اور افغان امور کی ماہر ہیں۔ اس کے علاوہ خلیل زاد کے ہمراہ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ملر بھی شامل ہیں۔ امریکی نمائندے اور اُن کا وفد اسلام آباد میں قیام کے دوران وزیراعظم عمران خاں‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کر چکا ہے۔ ان ملاقاتوں میں زلمے خلیل زاد نے پاکستان سے افغان مذاکرات کو کامیاب کروانے میں مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ اسلام آباد کو افغان مذاکرات کیلئے اسی لئے چنا گیا تھا‘ مگر طالبان نے ان مذاکرات میں حصہ لینے سے اس لئے انکار کر دیا ہے کیوں کہ اُن کے مطابق اُن پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندوں کی شرکت پر راضی ہو جائیں حالانکہ طالبان کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس مسئلے پر اُن کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ کسی قیمت پر بھی بات چیت نہیں کریں گے‘ کیونکہ یہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے اور اس کے پاس کوئی اختیار نہیں اس لئے اس کے ساتھ بات چیت کر کے وقت ضائع کرنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طالبان کا اصرار ہے کہ وہ صرف امریکہ سے بات چیت کریں گے‘ کیوں کہ یہ امریکہ ہے جس نے اُن کے ملک پر بزور طاقت قبضہ جما رکھا ہے اور امریکیوں کے ساتھ بھی وہ تین امور پر بات چیت کریں گے: افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل انخلا‘ قید میں رکھے ہوئے افغان طالبان کی رہائی اور طالبان رہنماؤں کے بیرونی سفر پر پابندیوں کا خاتمہ۔ مگر امریکیوں کا اصرار ہے کہ طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کرنا پڑے گی۔ یہ موقف صرف امریکیوں کا ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی بھی یہی خواہش ہے۔ لیکن طالبان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ کسی کے بھی دباؤ کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ گزشتہ ماہ دبئی میں مذاکرات کے بعد طے ہوا تھا کہ اگلا دور سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوگا۔ اس کے لئے طالبان نے اپنا ایک نمائندہ وفد بھی تیار کر لیا تھا مگر عین وقت پر طالبان نے اپنے وفد کی روانگی منسوخ کر دی کیوں کہ سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے طالبان کے سامنے پیشگی شرط رکھی گئی تھی کہ وہ ریاض پہنچنے سے قبل دو ماہ کیلئے جنگ بندی اور افغان حکومت کے وفد کی مذاکرات کے عمل میں شرکت پر اپنی رضامندی کا اعلان کریں لیکن طالبان نے ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مذاکرات کے بائیکاٹ اور زلمے خلیل زاد سے ملاقات سے انکار کا بھی اعلان کر دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغان مسئلے پر پیدا ہونے والا یہ تعطل قائم رہے گا؟ یا کوئی درمیانی راہ نکال کر مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کئے بغیر یہ تعطل ختم نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس وقت دونوں فریق یعنی امریکی اور طالبان اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں اور اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ وہ اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے پر راضی ہو جائیں گے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنا ہوگی اور اگر افغان اس کے برعکس جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو امریکہ بھی اس کے لئے تیار ہے اور افغان حکومت کی بھرپور حمایت کرے گا۔ جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے تو ماضی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کسی دباؤ کو قبول نہیں کرتے۔ اُنہوں نے بامیان میں مہاتما بدھ کے بُت کو مسمار کرنے کے مسئلے پر بین الاقوامی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ حالانکہ پاکستان نے بھی انہیں اس اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسی طرح 9/11 کے بعد تمام تر دباؤ کے باوجود اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے بھی انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ماضی کے اس تجربے کی روشنی میں افغان طالبان سے یہ کم ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے موقف سے دستبردار ہو کر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ مگر آج اور سترہ سال قبل کے حالات میں بہت فرق ہے۔ بین الاقوامی برادری اور خصوصاً افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان‘ سعودی عرب‘ متحدہ امارات بھی شامل ہیں‘ کی متفقہ رائے یہ ہے کہ طالبان کو افغانستان میں ایک محدود مدت کیلئے جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہئے اور حتمی حل کیلئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ خصوصاً پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی طرف سے طالبان پر دباؤ کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ 1996ء سے 2001 ء تک جب طالبان کی افغانستان میں حکومت تھی‘ تو دنیا میں صرف یہی تین ممالک تھے جنہوں نے ان کی حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا۔ گزشتہ سترہ سال کے دوران میں اور اس وقت بھی ان تینوں ممالک کا طالبان کے بارے میں رویہ ہمدردانہ بلکہ تعاون پر مبنی رہا ہے۔ اگر طالبان پاکستان کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی رائے اور مشورے کو یک سر نظر انداز کر کے اپنی ضد پر قائم رہے تو اُن کی کارروائیوں کے راستے میں بڑی سنگین رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس طرح وسطی ایشیا کے ممالک اور خاص طور پر روس اور چین بھی مذاکرات کو صرف امریکہ‘ طالبان ڈائیلاگ تک محدود نہیں رکھنا چاہتے‘ بلکہ ان میں افغان حکومت کی شرکت کی حمایت کرتے ہیں۔ حال ہی میں افغان امن کونسل کے ایک وفد نے ان ممالک کا دورہ کیا تھا اور افغان حکومت کے موقف کے حق میں اُن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ افغان حکومت کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب رہی تھی۔ کیونکہ خود افغان طالبان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت پر ایک علاقائی اتفاق رائے اُبھر رہا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر بھی جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں عوامی مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں قندھار اور افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں سول سوسائٹی اور افغان عوام کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری تعداد نے سڑکوں پر نکل کر افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امن کے قیام کے حق میں مظاہرے کئے تھے۔ اُن کی طرف سے افغان طالبان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فوری طورپر جنگ بندی کا اعلان کریں‘ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کریں تاکہ معصوم شہریوں کا قتل عام بند ہو۔ یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ اس کے حق میں اور جنگ کے خلاف ہر طرف سے اُٹھنے والی اس آواز کو طالبان نظر انداز کر دیں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو افغانستان میں پہلے سے کہیں زیادہ تباہی آ سکتی ہے۔ عالمی رائے عامہ طالبان کے خلاف ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات جیسے ممالک کو بھی طالبان کی حمایت اور مدد سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا۔