افغانستان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے اپنے ایک تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے میں دیر لگے گی‘ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ایک پیچیدگی یہ ہے کہ افغانستان کا مسئلہ اب صرف افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی کا معاملہ نہیں رہا۔ نہ ہی اس کا تعلق امریکہ اور طالبان کے درمیان معاملے تک محدود ہے بلکہ اس تنازعے کے ساتھ اب بہت سے فریقوں کے اہم اور بنیادی مفادات وابستہ ہو چکے ہیں‘ جنہیں افغانستان کے موجودہ مسئلے کو حل کرتے وقت پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان فریقوں میں سے ایک اہم فریق افغانستان کی ہمسائے میں واقع ممالک ہیں‘ جنہیں ڈر ہے کہ امریکی افغانستان سے نکلنے کی عجلت میں طالبان کے ساتھ کہیں ایسا معاہدہ نہ کر لیں، جس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک دفعہ پھر 1996 تا 2001 جیسی طالبان حکومت قائم ہو جائے اور اس طرح اُن کی اندرونی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان نے اپنے دورِ حکومت میں ایسی پالیسیاں اختیار کی تھیں، جن کی وجہ سے ان ملکوں میں انتہا پسند، دہشت گرد اور علیحدگی پسند عناصر کو تقویت حاصل ہوئی۔ جو ممالک اس ضمن میں خاص طور پر تشویش میں مبتلا ہیں‘ اُن میں روس بھی شامل ہے۔ اگرچہ روس کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے نہیں ملتیں؛ تاہم سابق سوویت یونین میں شامل وسطی ایشیا کی ریاستوں مثلاً ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔
1991ء میں سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان ریاستوں نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا‘ لیکن تقریباً تین عشرے گزرنے کے باوجود یہ ممالک ابھی تک متعدد اندرونی اور بیرونی سکیورٹی چیلنجوں سے دوچار ہیں۔ اس لئے انہوں نے کامن ویلتھ آف انڈی پنڈنٹ اسٹیٹس (سی آئی ایس) اور شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں روس کے ساتھ خصوصی دفاعی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ دیگر الفاظ میں 30 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک یہ ممالک سکیورٹی کے شعبے میں روس پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ افغانستان سے انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کا داخلہ روکنے کیلئے بھی ان ممالک نے اپنی جنوبی سرحدوں پر روس کے فوجی دستے متعین کر رکھے ہیں۔ روس کو ڈر ہے کہ افغانستان میں جنگ بندی اور طالبان کے ساتھ امریکیوں کے سمجھوتے کے بعد یہ خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ اسی لئے زلمے خلیل زاد کے مشن کے آغاز کے ساتھ ہی روس نے افغان مسئلے کے ایک ایسے حل کی تلاش شروع کر دی تھی، جو ان خطرات کا تدارک کر سکے۔ اس مقصد کیلئے روس نے سب سے پہلے طالبان کے ساتھ براہ راست رابطہ پیدا کیا۔ امریکی تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ روس طالبان کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے‘ اگرچہ روس نے اس کی تردید کی ہے؛ تاہم چین اور پاکستان کی طرح روس ایک ایسا ملک ہے جو طالبان کو ایک ایسی سیاسی قوت تسلیم کرتا ہے جسے افغانستان پر کسی بھی سمجھوتے کی تلاش میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر روس نے گزشتہ نومبر کے پہلے ہفتے میں 12 ملکوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی۔ اس کانفرنس کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پاکستان، ایران، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغان طالبان اور بھارت کے وفود نے بھی شرکت کی تھی۔ چونکہ افغان طالبان کی طرف سے افغانستان کی موجودہ حکومت کی شرکت کی سخت مخالفت کی گئی تھی‘ اس لئے افغانستان سے سرکاری وفد کی بجائے، افغان ہائی پیس کونسل، جو ایک غیر سرکاری تنظیم ہے‘ کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اسی طرح پاکستان کی طرف سے مخالفت کی وجہ سے، بھارتی وفد کو سرکاری حیثیت سے کانفرنس میں شامل نہیں کیا گیا تھا؛ تاہم جولائی 2015 میں اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ افغان طالبان کے ایک وفد نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی‘ اور سیاسی رہنماؤں پر مشتمل افغانستان کے ایک غیر سرکاری وفد سے ملاقات کی۔ لیکن بد قسمتی سے یہ کانفرنس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی‘ کیونکہ افغان طالبان نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ وہ جنگ بندی کے لئے امریکیوں کے سوا کسی اور سے بات نہیں کریں گے۔ جنوری کے آخری عشرے میں جب دوحہ میں امریکی وفد اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات میں اہم پیش قدمی ہوئی تو روس نے بھی اپنی افغان ڈپلومیسی تیز کر دی‘ اور اس سلسلے میں اس کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان ضمیر قبولوف نے مختلف ممالک کے رہنماؤں سے تبادلہ خیال کا آغاز کیا۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے‘ جہاں 29 جنوری کو مسٹر ضمیر قبولوف ایک مختصر دورے پر تشریف لائے اور وزرائے خارجہ کے حکام کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات پر پاکستان کے سرکاری حلقوں نے جو تبصرہ کیا‘ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا یہ طوفانی دورہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے علاقائی سطح پر ایک اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں روس کی سوچ یہ ہے کہ جو بھی سمجھوتہ ہو‘ اس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے خدشات کو پیش نظر رکھا جائے۔ یہ خدشات کیا ہیں؟
روسی نقطہ نظر کے مطابق ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان ایک دفعہ پھر ہمسایہ ممالک کی سکیورٹی کے لئے ایک خطرہ نہ بن جائے۔ اور ہمسایہ ممالک میں روس اپنے سمیت چین، وسطی ایشیا کی ریاستوں، ایران، پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کرتا ہے۔ گزشتہ دسمبر کے آخری ہفتے میں افغانستان کے مسئلے پر مشاورت کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین سمیت جن چار ملکوں کا دورہ کیا تھا، اُن میں روس بھی شامل تھا۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق اس دورے کے دوران روسی حکام نے امریکی وفد اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان پر کسی بھی سمجھوتے میں ہمسایہ ممالک کے مفادات اور خدشات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ ماضی میں افغانستان کی سرزمین کو ان ممالک میں انتہا پسند اور دہشت گرد رجحانات کے فروغ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ روس کا موقف یہ ہے کہ امریکیوں کے چلے جانے کے بعد افغانستان پر ایک دفعہ پھر انتہا پسندوں کا تسلط قائم نہ ہو جائے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں خدشات کے علاوہ روس کو یہ بھی خطرہ نظر آتا ہے کہ افغانستان کی معیشت چونکہ منشیات کی سمگلنگ پر بہت انحصار رکھتی ہے‘ اس لئے افغانستان سے روس کو منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کا مؤثر بندوبست کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ روس کے لئے سب سے اہم یہ خدشہ ہے کہ نیٹو اور امریکی فوجیں نکالنے کے اعلان کے باوجود امریکی افغانستان میں ایک ایسا سیٹ اپ چھوڑ کر جانے کے خواہاں ہیں، جو نہ صرف افغانستان اور جنوبی ایشیا میں اُن کے مفادات کا تحفظ کر سکے، بلکہ افغانستان کے راستے خلیج فارس اور بحر ہند کی طرف روس اور چین کے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کو بھی روک سکے۔ ابھی افغانستان میں جنگ بند کرنے کیلئے نہ تو کوئی سمجھوتہ ہوا ہے اور نہ ہی امریکی فوجیں ملک سے باہر نکلی ہیں‘ مگر افغانستان پر روس اور امریکہ کے درمیان ''سرد جنگ‘‘ شروع ہو چکی ہے۔ روس کے نزدیک امریکہ، افغانستان سے فوجیں تو نکال لے گا، مگر جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس اہم ملک میں اپنے مفادات سے دست بردار نہیں ہو گا۔ ان مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل طالبان سے کچھ ضمانتیں اور یقین دہانیاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روس امریکہ کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ اس کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان مسٹر قبولوف کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔