سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بلا شبہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کیلئے ایک اہم سنگ میل ہے‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں‘ خصوصاً سرمایہ کاری اور تجارت میں فقیدالمثال اضافہ ہو گا۔ اس سے جہاں پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہو گا، وہاں سعودی عرب نے جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں مثلاً بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کے ساتھ وسیع اقتصادی اور تجارتی روابط کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں مشرق وسطیٰ کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے‘ مگر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی اہمیت الگ ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں خانۂ خدا اور روضۂ رسولؐ موجود ہیں۔ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر سب سے زیادہ سعودی عرب کے پاس ہیں۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ''اوپیک‘‘ میں سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے‘ اور تیل کو عالمی معیشت میں جو حیثیت حاصل ہے، اُسی کی وجہ سے تمام صنعتی ممالک، سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی یہ محرک نمایاں طور پر کارفرما ہے۔ مثلاً ادائیگیوں کے عدم توازن پر قابو پانے کیلئے سعودی عرب نے دیگر امدادی اقدامات کے علاوہ پاکستان کو تین سال کیلئے تیل مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ جس کی ادائیگی بعد میں کی جائے گی۔ پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے یہ رعایت پہلی دفعہ نہیں ملی۔ اس سے قبل جب پاکستان نے 1998ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کیلئے، ایٹمی دھماکے کئے تھے، تو اس وقت بھی سعودی عرب نے مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر پاکستان کو تیل سپلائی کیا تھا۔ اور بعض با خبر ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے اس وقت جو تیل پاکستان کو سپلائی کیا تھا، اس کی رقم کبھی وصول نہیں کی۔ اُسی موقعہ پر سعودی عرب نے پاکستان کو زر مبادلہ کی کمی پر قابو پانے کیلئے فوری طور پر 100 ملین ڈالر کا قرضہ فراہم کیا تھا۔ اسی لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ 'ہر آڑے وقت پر سعودی عرب پاکستان کی امداد کو پہنچا ہے‘ بہت حد تک درست ہے۔ ایسا کرتے وقت سعودی عرب نے کسی کی ناراضگی اور دبائو کی کبھی پروا نہیں کی۔ آج کے مقابلے میں 1998ء میں پاکستان کو زیادہ مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا تھا کیونکہ ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے عالمی رائے عامہ پاکستان کے خلاف تھی اور سعودی عرب پر امریکہ کا دبائو تھا‘ لیکن دھماکوں کے فوراً بعد جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف وفد کے ہمراہ سعودی عرب پہنچے تو سعودی قیادت نے پاکستانی قیادت (جو دھماکے کرنے کے بعد گھبرائی ہوئی تھی) کو تسلی دی اور کہا کہ سعودی عرب اس موقعہ پر پاکستان کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ (جو بعد میں شاہ فہد کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا بنے) نے پاکستان کے لیے سعودی امداد فراہم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاک سعودی عرب ہمہ گیر تعلقات کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ان تعلقات کا پورا ادراک کرنے کیلئے ہمیں تیزی سے بدلتے موجودہ حالات کے علاوہ ماضی کا بھی حوالہ دینا پڑے گا‘ کیونکہ پاکستانی عوام کی جانب سے سعودی عرب کے علاوہ خطے کے باقی ممالک مثلاً ایران اور ترکی کے ساتھ بھی قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش بہت پرانی ہے۔ اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی طرف سے ترکی اور فلسطینی عوام کے لیے حمایت کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ فلسطینی عوام کیلئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں میں محبت کا یہ عالم تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی حمایت میں قراردادوں سے پہلے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی حمایت‘ اور ان پر انگریزوں اور صہیونی یہودیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی تھیں۔ آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کے عرب ممالک‘ بشمول سعودی عرب‘ کے ساتھ تعلقات میں بہت گرمجوشی تھی‘ مگر جب پاکستان نے عرب دنیا میں مغربی استعمار کے خلاف پائے جانے والے جذبات کو نظر انداز کرکے 1955ء میں معاہدہ بغداد (جو بعد میں سنٹو کے نام سے مشہور ہوا) میں شمولیت اختیار کی، تو یہ گرمجوشی سرد مہری میں تبدیل ہو گئی؛ تاہم سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ مگر یہ تعلقات زیادہ تر ثقافتی اور مذہبی نوعیت کے تھے۔
سیاسی اور معاشی طور پر بھرپور تعلقات کا دور 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا‘ جب ذوالفقار علی بھٹو نے مغرب کے خلاف عربوں کی طرف سے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حمایت کی اور وسیع تر مسلم اتحاد کا تصور پیش کیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 1974 میں لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں عرب اور عالم اسلام کے تمام ممتاز رہنمائوں نے شرکت کی تھی۔ ان میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، الجزائر کے بومیدین اور لیبیا کے کرنل قذافی بھی شامل تھے۔ اسی دوران مشرقِ وسطیٰ‘ خصوصاً سعودی عرب کو پاکستان سے مین پاور کی ایکسپورٹ کا بھی آغاز ہوا۔ سمندر پار ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانی ہنر مندوں اور غیر ہنر مندوں کی طرف سے بھیجے جانے والی رقومات (Remittances) ملک کے زر مبادلہ کا سب سے اہم حصہ ہیں‘ اور ایسے پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد، سعودی عرب میں کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سعودی عرب سے خام تیل اور فرنس آئل درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس وقت ان تعلقات کو برادرانہ کہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان تعلقات کو اس سطح پر لانے میں جہاں سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا‘ وہاں عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور حالات بھی اس سلسلے میں برابر کے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً 1970ء کی دہائی میں ترقی پذیر ممالک، جن میں زیادہ تر خام اشیا پیدا کرنے والے ممالک شامل تھے، پر مشتمل تیسری دنیا کے اتحاد نے تیل برآمد کرنے والے اور تیل برآمد نہ کرنے والے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت مدد دی۔ روسی قبضے کے خلاف جنگ میں سعودی عرب اور پاکستان ایک صف میں کھڑے تھے۔ اسی لیے 1980ء کی دہائی میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی دوران ایران میں اسلامی انقلاب اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی نے بھی سعودی عرب کو پاکستان کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور پھلتا پھولتا دیکھنے میں سعودی عرب کی دلچسپی محض حالات کی تبدیلی یا کسی شخصیت کی کاوش کی محتاج نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسے خطے کا حصہ ہے‘ جس میں واقع تقریباً تمام ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے دو طرفہ معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ اگرچہ جغرافیائی اتصّال اور مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی بنا پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سپیشل روابط قائم ہیں؛ تاہم جنوبی ایشیا بشمول پاکستان‘ کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے پیچھے کارفرما محرکات میں سب سے زیادہ اہم سعودی عرب کا اپنا قومی مفاد ہے۔ یہ مفاد معاشی اور سیاسی ہونے کے علاوہ سٹریٹیجک بھی ہے۔ سعودی عرب کو یقین ہے کہ ان مفادات کے حصول میں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کے علاوہ ایک پُرامن جنوبی ایشیا بھی اہم اور ضروری کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے‘ اور ایسا کرتے وقت لازمی ہے کہ ہم دیکھیں کہ کن مسائل پر پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے سکتا ہے اور کہاں پہ پاکستان کو اپنے قومی مفاد کیلئے الگ پالیسی اختیار کرنا ضروری ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا اس سلسلے میں مؤقف واضح ہے۔ امید ہے کہ سعودی قیادت بھی اس سے آگاہ ہو گی۔