پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے جب بھی کسی خطرناک بحران کی شکل اختیار کی تو بین الاقوامی برادری نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد دونوں ملک ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں؛چنانچہ بین الاقوامی برادری یا چند بڑے ممالک کا اس ضمن میں کردار اور بھی نمایاں ہو چکا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال فروری میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر بھارت کی سکیورٹی فورسز پر خودکش حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں چند بڑے ممالک کی مداخلت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ 71برسوں میں تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور متعدد مواقع پر سنگین تصادم کے خطرات کی صورت حال بھی پیدا ہو چکی ہے لیکن پلوامہ حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک تھی اور اس نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں یوں لاکھڑا کیا کہ تصادم ناگزیر نظر آتا تھا۔ ایسے میں دنیا کے سرکردہ ممالک نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی سفارتی کارروائیوں کا آغاز کیا اور دونوں ملکوں پر احتیاط برتنے پر زور دیا۔
بالا کوٹ کے قریب بھارتی طیاروں کے حملے کے جواب میں پاکستان کی کارروائی کے بعد باور کیا جا رہا تھا کہ اپنے دو طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کا بدلہ لینے کیلئے بھارت پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کر سکتا ہے۔ پاکستان نے اپنی طرف سے واضح کر دیا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی تو اس کا جواب دینے میں پاکستان ایک لمحہ تاخیر نہیں کرے گا۔ دنیا کے پاس جنوبی ایشیا میں ایک ایٹمی اور ممکنہ طور پر تیسری عالمگیر جنگ کو روکنے کی مہلت بہت کم تھی‘ اس لئے نئی دہلی اور اسلام آباد کے ساتھ فوری طور پر رابطے قائم کئے گئے۔ ان روابط کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑے تصادم کا خطرہ ٹل گیا‘ بلکہ بھارتی میڈیا کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے گرفتار بھارتی پائلٹ کو اُس کے وطن واپس بھیجنے کا جو اعلان کیا تھا اُس کے پیچھے بھی خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ ساتھ اہم عالمی رہنماؤں کا ہاتھ تھا ۔ان رہنماؤں میں امریکہ کے صدر کے علاوہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے فرمانروا شیخ زید بن سلطان النہیان شامل تھے۔ مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے اور جنگ کا خطرہ روکنے کے لیے جن ملکوں نے سرگرمی سے حصہ لیااُن میں چین‘ روس‘ برطانیہ اور یورپی یونین بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے موقف کی کھل کر حمایت یا مذمت نہیں کی‘ بلکہ کشیدگی کم کرنے پر زور دیا اور یہ بھی پیش کش کی کہ اگر پاکستان اور بھارت رضامند ہوں تو وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں جنوب ایشیائی خطے کے اہم ممالک ہیں اور خطے میں امن و استحکام کی ذمہ داری ان پر برابر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ان پر لازم ہے وہ کشیدگی میں اضافہ کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کریں جن سے خطے میں امن اور استحکام مضبوط ہو۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پاکستان اور بھارتی دونوں ملکوں کی قیادت سے رابطہ قائم کر کے بحران کو ختم کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیا اور اس میں مدد فراہم کرنے کے لیے روس نے میزبان کا کردار ادا کرنے کی پیش کش بھی کی۔
پاکستان‘ بھارت کے علاوہ عالمی مبصر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے میں ان ممالک کی طرف سے پس پردہ کوششوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اس لئے اس بحران کا جائزہ لیتے وقت اگر ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ اس کردار کی بنیاد اور نوعیت کیا تھی تو ہمیں نہ صرف اس بحران بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اُبھرتے ہوئے نئے سیاسی عوامل کا ادراک کرنے میں بھی بہت مدد ملے گی۔ مغربی ذرائع کے مطابق چین کی طرف سے محتاط مگر پیہم کوششوں کے پیچھے جو وجوہات کار فرما تھیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ بھارت کے ساتھ چین کے وسیع اقتصادی خصوصاً دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں روابط موجود ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تجارت کے مسئلے پر اختلافات اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے چینی درآمدات پر ڈیوٹی بڑھانے کی وجہ سے چین کے لئے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ چین امریکہ کے ساتھ اپنی تجارت کے حجم میں کمی کو دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر پورا کرنا چاہتا ہے اور بھارت اس میں سرفہرست ہے کیوں کہ بھارت نہ صرف چین کا ہمسایہ ہے بلکہ اس کے ساتھ تجارت کا توازن بھی بھاری طور پر چین کے حق میں ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھی اس بحران کے دوران متوازن اور امن کے حق میں رویہ اختیار کرنے کی واضح وجہ یہی ہے کہ ان دونوں ملکوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی بھاری سرمایہ کاری کے منصوبوں کے اعلان کئے ہیں۔ یہ اعلانات حال ہی میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان اور بھارت کے دوران میں کیے گئے تھے۔ یہ دونوں ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور جنگ کی بجائے امن اور تعاون کے خواہاں ہیں کیوں کہ یہ اُن کے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس بارے میں سعودی عرب کی تشویش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے پاک بھارت کشیدگی کو کم کروانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان اور بھارت کے دورے پر بھیجنے کا اعلان کیا ۔سعودی عرب کی طرف سے پاک بھارت تصادم کو روکنے میں خصوصی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ایران کے ساتھ محاذ آرائی اور یمن میں جنگ سعودی عرب کی ترجیح ہے۔ چین اور روس کے لیے نہ صرف پاک بھارت تصادم‘ جو کہ ایک ایٹمی جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے‘ بلکہ پلوامہ کا واقعہ بھی بھاری تشویش کا باعث ہے کیونکہ پلوامہ کا خودکش حملہ خطے میں اپنی نوعیت کا ایک الگ واقعہ ہے۔
روس اور چین پہلے ہی مفاہمتی کوششوں کے ذریعے افغانستان کی صورت حال میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کا مقصد خطے میں قیام امن و استحکام ہے۔ ان حالات میں اگر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک پر تشدد دھڑوں کی گرفت میں آ جاتی ہے تو اس سے خطے میں امن و استحکام کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جس کی افغانستان میں متحارب دھڑوں کے مابین مفاہمت کے عمل کے ساتھ توقع وابستہ ہے۔روس اور چین کو لاحق خدشات میں یہ بھی شامل ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اگرافغانستان میں انتہا پسند قوتیں غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اس سے پورے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ہوا ملنے کا اندیشہ ہے ؛ چنانچہ بین الاقوامی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں کی طرف سے محتاط رویہ اختیار کرنے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے‘ جس کا پاکستان کو بھی نوٹس لینا چاہئے اور اس کے مطابق آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے کیونکہ اردگرد کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔