حکومت کی جانب سے چند ایسی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں جو خلافِ قانون قرار دیے جانے کے بعد بھی نئے ناموں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اگرچہ کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائیاں نہ تو کسی بیرونی دباؤ کے تحت کی جا رہی ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق مقبوضہ کشمیر میں 14 فروری کو پلوامہ کے مقام پر بھارتی سکیورٹی فورسز پر ایک کشمیری حریت پسند کے خود کش حملے سے ہے‘ لیکن ان تنظیموں کے خلاف اقدام اُس وقت کیا جا رہا ہے جب پلوامہ کے حملے کو بھارت ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دے کر ایک تنظیم کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ پلوامہ حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال نے پاکستان اور بھارت کو ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ جیسا کہ قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے، اس جنگ کو روکنے میں جہاں پاکستان کی سیاسی قیادت کے ذمہ دارانہ رویے کو کریڈٹ جاتا ہے، وہاں اس ممکنہ تباہی کو روکنے میں بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ، روس، چین، یورپی یونین، سعودی عرب، متحدہ امارات اور اردن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پلوامہ کا حملہ ایک 19 سالہ کشمیری نوجوان نے کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں اور کشمیری عوام کے خلاف گزشتہ چند برسوں سے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا جو بازار بھارتی سکیورٹی فورسز نے گرم کر رکھا ہے‘ اس کے خلاف رد عمل کے طور پر حریت پسندوں کی جانب سے ایسی کارروائی ناگزیر تھی، مگر پاکستان سے باہر پلوامہ کے حملے کو دہشت گردی کی ایک کارروائی سمجھ کر اس کی مذمت کی گئی ہے اور ابتدا میں اس کی ذمہ داری مبینہ طور پر ایک تنظیم نے قبول کی تھی؛ تاہم اس حوالے سے مصدقہ خبر دستیاب نہیں ہو سکی۔ البتہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی کئی تنظیموں نے نام بدل کر اب بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں اور اپنا اثر و رسوخ پھیلایا ہوا تھا۔ اس کا اندازہ ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے تازہ ترین سلسلے سے ہو جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بعض تنظیموں نے فلاحی سرگرمیوں خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں کی آڑ میں جو سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں‘ اُن کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ جن اداروں اور سہولیات کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے ان میں سکول، مدرسے، ہسپتال اور ڈسپنسریاں شامل ہیں۔ ان تنظیموں کے رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو حکومت نے اپنی حفاظتی حراست میں لے لیا ہے تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سوچ کو پروان چڑھانے کے مبینہ الزام میں ان تنظیموں کے خلاف اس سے پہلے بھی کئی دفعہ کارروائیاں کی جا چکی ہیں‘ لیکن وہ غیر موثر ثابت ہوئیں۔ اُمید ہے اس بار ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس بار حکومت ان کو نئے ناموں سے دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کرنے سے روکے رکھنے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ ان تنظیموں کو کھلی چھٹی ہونے کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ کو تقویت حاصل ہو رہی تھی۔
صورت حال کی نزاکت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ روز پہلے ایران پاکستان کے علاقے میں گھس کر مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے رہا تھا؛تاہم اب اس معاملے میں بہتری پیدا ہونے کی توقع میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل ایران کے صدر حسن روحانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا‘ جس میں دونوں رہنمائوں نے خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال اور دونوں ممالک میں انسداد دہشت گردی کے لئے انٹیلی جنسکے حوالے سے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں رہنمائوں نے باہمی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اس رابطے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین تنائو کم ہو جائے گا۔
ادھر افغانستان کی طرف سے بھی الزام عائد کیا جا تا رہا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجو افغانستان میں سرکاری اور امریکی افواج پر حملوں کے لئے ابھی تک پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں‘ جس کی پاکستان بھرپور تردید کرتا رہا ہے۔ پہلے صرف بھارت ہی پاکستان دشمنی میں سب سے آگے تھا‘ اور ایک کالعدم تنظیم کے رہنما کو اقوام متحدہ کی ٹیرر لسٹ (Terror List) میں شامل کرنے کے لئے کوشاں تھا۔ اب اس مقصد کے لئے برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین بھی سرگرم ہو چکے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس دفعہ اس کوشش کو بلاک کرنے میں چین اپنی ویٹو پاور استعمال نہیں کرے گا۔ اس کی طرف اشارہ اس اطلاع سے بھی ملتا ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اس دفعہ شاید حکومت پاکستان خود ان صاحب کے خلاف اقوام متحدہ کی کارروائی کو بلاک کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پلوامہ حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال نے جہاں ایک طرف مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد دی ہے، وہاں یہ حقیقت بھی عیاں ہو رہی ہے کہ پاکستان اپنے ہاں سرگرم کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہو رہا ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر عالمی برادری‘ جس میں پاکستان کے قریبی دوست ممالک بھی شامل ہیں، کو سخت تشویش ہے کیونکہ ان کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا کے دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کسی وقت بھی ایٹمی جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ان دونوں ملکوں میں ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس سے نہ صرف یہ ممالک اور پورا خطہ‘ دونوں ناقابل تصور تباہی سے دوچار ہو جائیں گے بلکہ عالمی امن بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
ملک کے سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان تنظیموں کے قائم کردہ اور ان کے کنٹرول میں چلنے والے اداروں کو حکومت کی تحویل میں لے کر یا ان تنظیموں کے سرکردہ رہنماؤں کو چند ماہ کے لئے نظر بند کرنے سے انتہا پسندی یا دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ انہیں بے اثر بنانے میں نہ صرف ایک طویل عرصہ درکار ہو گا، بلکہ بعض بنیادی اور جرأت مندانہ فیصلے بھی کرنا پڑیں گے۔ گزشتہ ادوار میں بعض عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے انتہا پسندانہ سوچ ہمارے معاشرے میں بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پانچ سال قبل قومی اتفاق رائے سے قائم کیے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے بیشتر نکات پر سرے سے ہی عمل درآمد ہی نہیں ہوا۔ اس کے تحت تشکیل کردہ نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (نیکٹا) ابھی تک غیر فعال ہے۔ مدارس کو رجٹریشن اور اصلاحات کے ذریعے قومی دھارے لانے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے‘ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ مرکز کا اصرار ہے کہ چونکہ لا اینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے، اس لئے دہشت گردی کے خاتمہ میں صوبے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ صوبوں کی طرف سے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں انہیں ضروری وسائل مہیا نہیں کئے جاتے؛ تاہم موجودہ حکومت کے متعدد اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسندی اور نفرت کی سوچ کے خلاف اس کی جدوجہد خلوصِ نیت پر مبنی ہے۔ مگر جب تک ایک مربوط، ہمہ گیر، قومی اتفاق رائے اور مصمم ارادوں کی بنیاد پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف زندگی کے ہر شعبے سے اس سوچ کی بیخ کنی کے لئے حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی، یہ خطرناک عناصر کسی نہ کسی شکل میں سرگرم عمل رہیں گے‘ جبکہ معاشرے سے انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کر کے ہی امن اور ترقی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔