"DRA" (space) message & send to 7575

افغان مذاکرات: حوصلہ افزا پیش رفت

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے 25 فروری سے جو مذاکرات ہو رہے تھے‘ وہ بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے ہیں؛ تاہم امید کی ایک ہلکی سی کرن ابھی باقی ہے‘ کیونکہ فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی لیے ایک تبصرہ نگار نے ان مذاکرات کے بارے میں بجا طور پر کہا ہے کہ 16 دن کے ان مذاکرات کے نتیجے میں اگر کوئی ''بریک تھرو‘‘ نہیں ہوا، تو ''بریک ڈائون‘‘ بھی نہیں ہوا۔ مذاکرات میں حصّہ لینے والے امریکی وفد کے قائد زلمے خلیل زاد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مشورہ کرنے کے لئے امریکہ سدھار گئے ہیں‘ اور طالبان کے وفد کے ارکان اپنی اعلیٰ قیادت سے تازہ ترین ہدایات کے لیے قطر سے روانگی اختیار کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے خاتمے کے بعد کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا‘ بلکہ امریکی وفد اور مذاکرات میں حصہ لینے والے طالبان نے علیحدہ علیحدہ بیانات جاری کئے۔ اگر ان دو مختلف بیانات میں کوئی چیز مشترک ہے تو وہ یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں یہ مذاکرات چند مسائل پر زیادہ ''بارآور‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ ان مسائل میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اور انسدادِ دہشت گردی کے متعلق طالبان کی طرف سے امریکہ کو یقین دہانیاں شامل ہیں۔ لیکن جہاں تک باقاعدہ معاہدے سے پہلے جنگ بندی کا تعلق ہے، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق اس پر کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ امریکہ اور طالبان کے بیانات کا اگر الگ الگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ابھی فریقین میں اختلافات کی ایک بڑی خلیج حائل ہے۔ مثلاً امریکی وفد کے رہنما زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاہدے کے لیے چار امور پر ایک ساتھ اتفاق ضروری ہے۔ اوّل‘ فوجوں کا انخلا۔ دوئم‘ افغان سر زمین کو امریکہ اور دیگر ملکوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا۔ سوئم‘ جنگ بندی اور چہارم‘ مذاکرات میں دیگر افغان گروپوں‘ جن میں صدر اشرف غنی کی حکومت بھی شامل ہے، کی شمولیت۔ امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد کے مطابق افغانستان میں قیام امن اور جنگ کے خاتمے کیلئے ان چاروں نکات پر اتفاق ضروری ہے‘ لیکن طالبان فوجوں کے انخلا پر زور دے رہے ہیں‘ اور وہ امریکیوں سے پوچھ رہے ہیں کہ افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا کب شروع کریں گے اور کتنے عرصہ میں مکمل کریں گے؟ کیونکہ ان کے ترجمان کے مطابق باقی امور پر پیش رفت اس اہم نکتے پر پیش رفت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے فوری جنگ بندی کا امریکی مطالبہ مسترد کر دیا ہے‘ حالانکہ اس کے لیے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی طالبان پر زور دیا تھا۔
قطر کے دارالحکومت میں ہونے والے یہ مذاکرات اب تک ہونے والے مذاکراتی ادوار میں سب سے زیادہ طویل تھے۔ اگرچہ ان سے ابھی کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہوا؛ تاہم فریقین کی جانب سے انہیں جاری رکھنے پر اتفاق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فریقین ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ جیسا کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تمام فریق اس جنگ کو ختم کر کے افغانستان میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق فریقین میں ایک معاہدے پر مفاہمت ہو گئی ہے اور اس کا ایک مسودہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ صرف جزویات طے کرنا باقی ہیں‘ لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس کی تردید کی ہے اور ایک دفعہ پھر زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ طالبان کی اولین ترجیح افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور اس کا ٹائم ٹیبل ہے۔ مگر امریکی اپنی افواج کے انخلا پر آمادگی کا اظہار تو بہت پہلے کر چکے تھے۔ اس کا فیصلہ تو سابق صدر اوباما 2011 میں کر چکے تھے‘ جس کے تحت 2014ء تک بیشتر امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے جا چکی ہیں۔ انخلا کے اس عمل کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کی موجودہ امریکی انتظامیہ نے بھی افغانستان سے مزید فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے‘ لیکن طالبان اس سے مطمئن نہیں۔ وہ افغانستان سے امریکہ کا مکمل فوجی انخلا چاہتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ باقی امور کا تعلق افغانستان اور افغانستان کے عوام سے ہے اور طالبان ان سے مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکالنے پر رضا مند ہیں‘ لیکن اس سے نہ صرف امریکہ بلکہ افغانستان میں دیگر سٹیک ہولڈرز‘ جن میں صدر اشرف غنی کی حکومت، افغانستان کی سول سوسائٹی اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک شامل ہیں، کے بھی خدشات دور نہیں ہوئے۔ اگرچہ طالبان نے یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد وہ دیگر افغان گروپوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، مگر کسی کو یقین نہیں آ رہا کہ طالبان اپنے سخت گیر رویئے میں لچک پیدا کر سکیں گے۔ اس طرح افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں وسطی ایشیاء کے ممالک اور ایران کے علاوہ روس اور چین بھی شامل ہیں، طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے کے بارے میں فکر مند ہیں کیوں کہ ان تمام ممالک کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پرستی سے اپنی قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی بھی معاہدہ ہو، اُس میں اس بات کا اہتمام کرنا لازمی ہے کہ امریکیوں اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد، افغانستان میں وہ حالات پیدا نہ ہو جائیں جو 1996-2001 کے عرصہ کے دوران تھے۔ سب سے پیچیدہ مسئلہ افغانستان میں صدر اشرف غنی کی موجودہ حکومت کے مستقبل کا ہے۔ طالبان مذاکرات کے عمل میں موجودہ افغان حکومت کی شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔ لیکن زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ جن چار نکات پر اتفاق رائے افغانستان میں ایک معاہدہ امن کیلئے ضروری ہے۔ ان میں انٹرا افغان ڈائیلاگ یعنی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی باقی مسائل کے حوالے سے طے کئے گئے معاملات پر عمل درآمد۔ اس وقت اگرچہ طالبان مائل نظر نہیں آتے، مگر جس طرح امریکہ نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے طالبان کو ایک سیاسی قوت تسلیم کیا ہے‘ اور ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کو حل کرنے کیلئے بات چیت کی پہل کی ہے‘ اسی طرح طالبان کو بھی افغانستان اور اس کے گرد و نواح میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور حقائق کو ماننا پڑے گا‘ اور ان کی روشنی میں نہ صرف اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنا پڑے گی بلکہ فوجی انخلا کے بعد ایک ایسے سیاسی اور انتظامی نظام کی تشکیل پر متفق بھی ہونا پڑے گا جس پر سب سٹیک ہولڈرز متفق ہوں۔ 
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کو 17 برس سے زائد ہونے کو ہیں۔ اس عرصہ کے دوران افغانوں کی ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے‘ جسے طالبان حکومت کے تحت زندگی بسر کرنے کا کوئی تجربہ نہیں؛ البتہ اس نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے طالبان دور میں عورتوں کی تعلیم، ملازمت اور باہر نکلنے پر سخت پابندی اور مردوں پر سخت گیر شرعی قوانین کی پاسداری کے علاوہ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں سنانے کے ہولناک قصے ضرور سنے ہوں گے۔ جدید ترین تعلیم اور ڈیجیٹل عہد سے روشناس افغان نوجوانوں کی اس بڑی تعداد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ طالبان کے پرانے دور کو قبول کر لیں گے، ایک غیر حقیقت پسندانہ بات ہو گی۔ گزشتہ 17 برسوں میں افغانستان میں کئی پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں‘ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ جمہوری قدروں سے بہرہ مند ہو چکا ہے۔ اسی لیے افغان حکومت کی اس تجویز کہ 'طالبان جمہوری طریقے یعنی انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کریں‘ نہ کہ بندوق کے زور سے‘ کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرا ملک اصرار کر رہا ہے کہ افغانستان میں کون برسرِ اقتدار آئے گا‘ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں