"DRA" (space) message & send to 7575

چین اور جنوبی ایشیا

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ بحران کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے بین الاقوامی برادری میں فوری طور پر تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور متعدد ممالک نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے اور فریقین کو جنگ سے پرے ہٹانے کی کوشش کی۔ جن ممالک نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا اُن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکہ، روس، چین، برطانیہ کے علاوہ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اُردن اور ترکی بھی شامل تھے۔ چونکہ کشیدگی، بلکہ جنگ کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور دونوں ملکوں کی مسلح افواج بدستور چوکنا کھڑی ہیں، اس لیے صورت حال کو معمول پر لانے کے لئے بین الاقوامی کوششیں اب بھی جاری ہیں اور کئی ممالک نے پاک بھارت تنازعات‘ جن میں کشمیر بھی شامل ہے، کو حل کروانے کے لئے ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ پاکستان نے اس نوع کی ہر پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے اور پیش کش کرنے والے ممالک کے خلوص نیت کو سراہا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان نے جن ممالک کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا‘ اُن میں چین بھی شامل ہے۔ چونکہ چین پاکستان کا ایک نہایت قریبی دوست اور دونوں ممالک (پاکستان‘ بھارت) کا ہمسایہ ملک ہے اور حالیہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی اُس کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اس کالم میں ہم پاک بھارت بحران میں چین کے کردار کا بطورِ خاص جائزہ لیں گے۔ 
پاکستان سمیت چین نے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مختلف شعبوں میں جو گہرے تعلقات قائم کیے ہیں، اُن کی بنیاد پر چین جنوبی ایشیا میں ایک اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ پاک چین اکنامک کوریڈور اور ون بیلٹ ون روڈ کے ساتھ نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کی وابستگی کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت کی وجہ سے چین اور جنوبی ایشیا کے درمیان قربتیں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ اس لیے جنگ‘ امن اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے پاک بھارت بحران میں چین کے کردار کا جائزہ اس خطے میں امن، بین الاقوامی تعاون اور استحکام کے آئندہ امکانات جاننے کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ خود چین نے کہا ہے کہ پاک بھارت بحران کو ڈیفیوز کرنے میں اس کا کردار تعمیری اور ذمہ دارانہ رہا ہے۔ بیجنگ میں پاک چین سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے موقعہ پر چینی وزیر خارجہ چن ژی نے کہا کہ حالیہ بحران کے دوران پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں چین نے تعمیری کردار ادا کیا ہے اور وہ نہ صرف اس کردار کو جاری رکھے گا بلکہ پاکستان اور بھارت پر جنگ کی بجائے امن کے راستے پر چلنے پر زوربھی دیتا رہے گا۔ چینی قیادت کی طرف سے اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں اُن کا مقصد پاکستان اور بھارت کو یہ یاد دلانا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور دونوں ملکوں کو باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔ چینی حکومت کے بیانات کے مطابق چین نے پاکستان اور بھارت کو اس طرف راغب کرنے کی پہلے بھی کوشش کی اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ چینی زعما کا اشارہ غالباً 2004ء میں شروع ہونے والے پاک بھارت امن عمل کی طرف ہے، جس کے پسِ پردہ کردار ادا کرنے والے ممالک میں چین بھی شامل تھا۔ لیکن پلوامہ کے خود کش حملے کے بعد کی صورتِ حال میں چین نے اپنے کردار سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک متوازن اور مثبت پالیسی پر کاربند ہے۔ مثلاً چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جو بیانات جاری کیے گئے اُن میں پاکستان اور بھارت دونوں کو چین کا دوست ملک قرار دیا گیا۔ اسی طرح بیجنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں، چینی وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں جو بیان دیا‘ اُس میں بھی چین کو پاکستان اور بھارت دونوں کا ''دوستانہ ہمسایہ مُلک‘‘ قرار دیا۔ چین کی طرف سے باہمی تنازعات کو تشدد کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا پیغام پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے ہے۔ اس بیان کے ذریعے جہاں چین کی طرف سے بھارت کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے پاکستانی تجویز کو مسترد کرنے کی پالیسی ترک کر کے متنازعہ مسائل حل کرنے کے لئے بات چیت کا راستہ اختیار کرے، وہاں اس میں پاکستان کے لئے بھی ایک دوستانہ مشورہ مضمر ہے کہ وہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو کسی قسم کی اور کہیں بھی دہشت گردی کے لیے اپنی سر زمین استعمال کرنے کا موقع نہ دے اور ان تنظیموں کو ایسی ہر کارروائی کرنے سے مؤثر طور پر روکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہو کیونکہ یہ صورت حال نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے کے مفاد کے خلاف ہے۔ 
پاکستان اور بھارت کے حالیہ بحران کے موقعہ پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے جو ردّ عمل سامنے آیا‘ اُس سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوتی ہے کہ دنیا پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف ایک جنگ بلکہ کشیدگی کے بھی خلاف ہے۔ ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کرنے کو تیار ہے۔ اس سلسلے میں بعض ممالک نے مصالحت کنندہ بننے کی پیش کش بھی کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم ایک ایٹمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مگر جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کے قومی سلامتی کے مفاد کے لئے ایک پُر امن اور کشیدگی سے پاک جنوبی ایشیاء کا خطّہ مزید کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیاء کے ممالک کی علاقائی تنظیم ''سارک‘‘ کے آٹھ رکن ممالک میں سے پانچ یعنی بھوٹان، نیپال، بھارت، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اس کی مشترکہ سرحد ہے۔ جنوبی ایشیا میں خلفشار کا چین کی اندرونی صورتِ حال پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور ان حالات میں جبکہ خود اس کے ایک مغربی صوبے سنکیانگ میں انتہا پسند عناصر سرگرم عمل ہیں، چین کے لیے اس کے جنوبی حصّے سے ملحقہ خطے میں بد امنی، خلفشار یا جنگ قابل قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نہ صرف پاک بھارت تصادم کو روکنے کے لئے نمایاں طور پر کوشاں ہے بلکہ کشیدگی میں کمی کی خاطر دونوں ممالک میں سب سے بڑا تنازعہ یعنی کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل چین نے اعلانیہ طور پر یہ پیش کش کی تھی، جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا تھا‘ مگر بد قسمتی سے بھارت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ ربع صدی قبل چین کی طرف سے اس قسم کی پیش کش کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی کو ناکام بنانے پر بھارت چین سے سخت ناراض ہے، لیکن چین نے بھارت کو یقین دلایا ہے کہ وہ پاک بھارت تنازعہ میں غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے۔ چینی پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات محاذ آرائی اور کشیدگی سے پاک ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے چین نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی مستقل رکنیت کی راہ ہموار کی تھی۔ افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کی کوششوں میں چین کا فعال کردار بھی چین کی اس حکمت عملی کا مظہر ہے کیونکہ چین کو یقین ہے کہ افغانستان میں جنگ بند ہونے سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ سی پیک کی کامیابی اور اس کی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک توسیع کا مقصد بھی جنوبی ایشیا میں امن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ چین نے ایک ٹریلین (1000 بلین) ڈالر کی لاگت سے دنیا کے مختلف خطوں کو ریلوے‘ شاہرات اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کے ایک وسیع جال کے ذریعے آپس میں ملانے کا ایک عظیم منصوبہ ''ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ کے نام سے شروع کر رکھا ہے۔ سی پیک جو کہ 60 بلین ڈالر سرمایہ کاری کا ایک منصوبہ ہے‘ ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کا سب سے اہم حصّہ ہے۔ لیکن پاک بھارت کشیدگی اس کی کامیابی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ چین، پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کو خوشگوار اور پُر امن بنا کر اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں