جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے‘ اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کی مخالفت میں انہوں نے یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کئے ہیں کہ انہوں نے ایسا کرتے وقت نہ تو بین الاقوامی قانون کے ضابطوں اور نہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پروا کی ہے‘ نہ اپنے یورپی اتحادیوں کو ساتھ لیا ہے اور نہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں روایتی اور برسوں پرانی امریکی پالیسی کی پرواکی ہے۔ ان اقدامات میں سے تازہ ترین اسرائیل کے قبضے میں شام کے علاقے سطح مرتفع گولان کو اسرائیل کے باقاعدہ حصے کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیر قانونی اقدام پر نا صرف عرب دنیا میں احتجاج کیا گیا ہے‘ بلکہ امریکہ کے یورپی اتحادی بھی سخت نالاں ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سکیورٹی کے نام پر اپنے اس اقدام کا برملا دفاع کر رہی ہے‘ بلکہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان امن کے قیام کی خاطر امریکہ جلد ایک نئے منصوبے کا اعلان کرنے والاہے‘ جس کے تحت اسرائیل کو مزید رعایتیں دینے کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ڈر ہے کہ گولان سطح مرتفع پر جس طرح ٹرمپ نے یوٹرن لیا ہے‘ اسی طرح ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے حق میں امریکی پالیسی کو خیر باد کہہ دیا جائے گا۔
سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے کانگرس کے سامنے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں جو بیان دیا ہے‘ اس سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی ہے۔ اس سے قبل 2017ء میں امریکہ عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پروا کئے بغیر بیت المقدس کو اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر چکا ہے۔ امریکہ میں فلسطینیوں کا ایک دفتر کام کر رہا تھا‘ ٹرمپ نے اسے بھی بند کر دیا۔ امریکی صدر نے فلسطینیوں کے خلاف اقدامات میں اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اقوام متحدہ کا وہ ادارہ جو فلسطینی مہاجرین کے بچوں کو تعلیم اور خوراک کے حصول میں مدد فراہم کر رہا تھا‘ صدر ٹرمپ نے اس ادارے کے فنڈز بھی روک لئے ہیں۔ سطح مرتفع گولان کے بارے میں امریکہ کا اعلان اسرائیل کو خوش کرنے اور اپنے دوست اسرائیلی وزیراعظم بنیا مین نیتن یاہو کے انتخابات میں کامیابی کے امکانات کو روشن کرنے کے لیے کیا گیا ہے‘ مگر اس کے دور رس سیاسی نتائج برآمد ہوں گے‘ کیونکہ سات ہزار مربع میل رقبے اور تقریباً 50 ہزار آبادی پر مشتمل شام کا یہ سرحدی علاقہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے زبردست جنگی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مغرب میں اسرائیل کا میدانی علاقہ واقع ہے اور شمال میں اس کی سرحدیں لبنان سے ملتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تازہ پانی کے ایک بہت بڑے ذخیرے گلیلی سمندر تک اسرائیل کی رسائی اسی علاقے کے راستے سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس پر قبضہ کرنے کے لیے ہمیشہ بے تاب رہا ہے۔
1967ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان تیسری جنگ نے اسرائیل کو یہ موقعہ فراہم کر دیا اور جنگ کے ابتدائی لمحوں میں ہی اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ گولان کی سطح مرتفع پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس وقت سے یہ علاقہ اسرائیل کے زیر قبضہ چلا آ رہا ہے۔ 1973ء کی جنگ میں شامی افواج نے اچانک حملہ کر کے اس علاقے سے اسرائیلی افواج کو پیچھے دھکیل دیا تھا‘ مگر اسرائیل نے جلد ہی اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا‘ لیکن اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک بھی شامل ہیں‘ نے سطح مرتفع گولان پر نہ تو اسرائیلی قبضہ جائز قرار دیا اور نہ اس کو اسرائیل کا علاقہ تسلیم کیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال نومبر 1967ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 262 ہے‘ جس کے تحت اسرائیل سے ان عرب علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جن پر اس نے جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ ان علاقوں میں سطح مرتفع گولان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں امریکہ بھی شامل تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد گولان سطح مرتفع کے بارے میں امریکہ کی ہر حکومت نے اپنی پالیسی جاری رکھی اور اس علاقے پر اسرائیل کی طرف سے مستقل قبضے یا اسے شام سے الگ کرنے کے ہر اقدام کی مخالفت کرتی رہی۔ اسی پالیسی کے تحت 1981ء میں جب اسرائیلی وزیراعظم منچن بیگن نے سطح مرتفع گولان کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھاتو اسرائیل کے اس اقدام کو ناصرف اقوام متحدہ نے مسترد کر دیا تھا‘ بلکہ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ناراض ہو کر اسرائیل کو 300 ملین ڈالر کے اسلحہ کی فروخت بھی روک دی تھی۔لیکن موجودہ صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کو الٹ پلٹ کر دیا ہے اور 1948ء سے عرب اسرائیل تنازعے اور مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی روایتی پالیسی جن بنیادوں پر قائم کی گئی تھی‘ صدر ٹرمپ انہیں ایک ایک کر کے مسمار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بلکہ خود امریکی مبصرین اور میڈیا‘ سطح مرتفع گولان پر ٹرمپ کے یوٹرن کو مشرق وسطیٰ اور عرب اسرائیل تنازع کے بارے میں چھ دہائیوں سے زائد عرصے پر ان امریکی پالیسیوں پر کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اگلا اقدام دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کا فیصلہ ہوگا۔
اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کی دائیں بازو کی پارٹی ''لیوکڈ‘‘ سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ پہلے ہی اس مطالبے کے حق میں ایک مہم چلا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے ارد گرد غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ یہودی بستیوں کو جائز قرار دینے کا اعلان کر دیں گے۔ اسی طرح اسرائیل کی ایک دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لیے دریائے اردن کے پانی کو مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کرنے کی کوشش کریں گے‘ بلکہ اب تو یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ عرب ۔اسرائیل تنازعے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے ''دو ریاستوں‘‘ یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز کو بھی واپس لے لے گا۔
امریکی کانگرس کے روبرو جب سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو سے یہ پوچھا گیا تو انہوں نے واضح اور دو ٹوک جواب دینے کی بجائے‘ بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں پرانی امریکی اپروچ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی اس لیے امریکہ اس مسئلے پر بحث کے دائرے کو وسعت دینا چاہتاہے۔ مبصرین نے مائیک پومپیو کے اس بیان سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے‘ یہ ہے کہ 1967ء سے اب تک مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی کا ڈھانچہ جن ستونوں پر کھڑا تھا‘ ڈونلڈ ٹرمپ انہیں ایک ایک کر کے گرانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے 1967ء کی جنگ میں چھینے ہوئے عرب علاقوں کی واپسی‘ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت‘ فلسطینی مہاجرین کی امداد‘ دو ریاستی (Two States) فارمولا‘ بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دینا‘ اور دریائے اردن کے پانی پر اردن اور اسرائیل دونوں کے حقوق کو تسلیم کرنا مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی کے اہم ستون رہے ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ باری باری ان کو گرانے کا کام جاری رکھیں گے تو مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کا جو بچا کچھا ڈھانچہ ہے‘ وہ دھڑام سے نیچے آ جائے گا؛ اگر ایسا ہوا تو یہ 1948ء میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے بعد علاقے میں سب سے بڑا دھماکا ہوگا۔ دنیا پہلے ہی 1948ء کے فیصلوں کا خمیازہ بھگتنے سے فارغ نہیں ہوئی‘ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ 50 سے زائد برسوں میں امن اور مصالحت کی خاطر اقوام متحدہ‘ بین الاقوامی برادری‘ یورپی ممالک اور خود امریکہ کے کئی صدور کی محنت پر پانی پھیرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو امریکہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے نتائج پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرناک ہوں گے۔