وفاقی کابینہ میں رد و بدل کی قیاس آرائیاں پچھلے کچھ عرصے سے جاری تھیں لیکن حکومت ان سے برابر انکار کر رہی تھی۔ حتیٰ کہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات اور حکومت کے ترجمان فواد چودھری صرف ایک دن پہلے ان قیاس آرائیوں خصوصاً وزیر خزانہ اسد عمر کی علیحدگی کی بھی بڑے زور اور اعتماد کے ساتھ تردید کر چکے تھے‘ لیکن اسد عمر صاحب کے استعفے اور اُس کے بعد باقی وفاقی وزرا میں سے کچھ کے محکموں میں رد و بدل اور ایک وزیر کی برطرفی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کا عمل ماہرین کے اندازوں اور لوگوں کے وہم و گمان سے کہیں زیادہ ہے اور شاید یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے کیونکہ اورکزئی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کپتان صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ ابھی انہوں نے ''بیٹنگ آرڈر‘‘ تبدیل کیا ہے‘ ٹیم میں مزید تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ اس کی طرف انہوں نے اشارہ بھی کر دیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اپنی اپنی ٹیم پر نظر رکھیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر ان صوبوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو وہاں بھی رد و بدل ہو سکتا ہے۔ یہ کب ہو گا؟ اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال جس تیزی سے خراب ہو رہی ہے وہ ان صوبوں میں ٹیم کے تبدیل ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کو کوئی وارننگ نہیں دی‘ جہاں گزشتہ صرف ایک ہفتے میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے حوالے سے صوبائی انتظامیہ کی بے حسی اور تباہ شدہ گھروں اور مرنے والے مویشیوں کے مالکان کو حکومت کی طرف سے مناسب معاوضہ یا متبادل انتظامات کی عدم فراہمی پر عوامی احتجاج کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسد عمر کو نااہلی کی بنیاد پر مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا‘ مگر بہت سے لوگ اسے درست تسلیم نہیں کرتے۔ خود وفاقی وزرا سے متعدد نے اسد عمر کی تعریف کی اور کہا ہے کہ انہوں نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا دینے کی بہت کوشش کی لیکن بات ان کے بس سے باہر تھی‘ انہیں پوری ٹیم کے تعاون کی ضرورت تھی‘ لیکن ٹیم کے ارکان ان کا ہاتھ بٹانے کی بجائے ان پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو لاحق بیماری ایک ایسی ہے‘ جس کا بغیر تشخیص کے علاج کیا جا رہا ہے۔ اس لئے جو بھی دوا دی جا رہی ہے وہ کارگر ثابت ہونے کی بجائے، مرض میں مزید اضافہ کر رہی ہے اور مریض کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ مثلاً برآمدات میں اضافہ کرنے کیلئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کر دی گئی‘ لیکن برآمدات میں اضافہ نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت اور سرمایہ کاری رزاق داؤد نے اس کا برملا اعتراف کیا۔ اس کی بجائے افراط زر اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت نے ترقیاتی بجٹ 50 فیصد تک کم کر دیا۔ اس سے ترقیاتی کام رک گئے، بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی سالانہ شرح خطرناک حد تک نیچے آ گئی۔ پچھلی (نواز لیگ کی) حکومت‘ جسے موجودہ حکمران پارٹی معیشت کی زبوں حالی کا سب بڑا ملزم قرار دیتی ہے‘ کے دور کے آخری برس میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع تھی‘ لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی معاشی صحت پر اپنے اپنے جائزے میں جو ہولناک اعداد و شمار شائع کئے، ان سے مریض کے جلد صحت یاب ہونے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ حکومت کی مشکل یہ تھی کہ وہ ان اعدادوشمار کو مسترد نہیں کر سکتی تھی‘ نہ ہی انہیں پاکستان کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازش کہہ کر ان کی مذمت کر سکتی تھی‘ کیونکہ پاکستان اپنے مالی معاملات چلانے کیلئے انہی اداروں سے اُدھار لینے کی کوشش میں تھا۔ مستعفی ہونے سے پہلے اسد عمر امریکہ میں آئی ایم ایف حکام سے ''کامیاب‘‘ مذاکرات کرکے واپس لوٹے تھے اور انہی ''کامیاب مذاکرات‘‘ کی بنیاد پر انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ''مریض کو آئی سی یو‘‘ سے نکال کر وارڈ میں لٹا دیا گیا ہے، جہاں اُس کی صحت آہستہ بہتر ہو رہی ہے۔ پھر اچانک وہ مستعفی ہو گئے یا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا‘ جس پر سب کو حیرت ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت نے معیشت کو بہتر بنانے کیلئے اب تک جتنے بھی اقدامات کئے‘ وہ باری باری سب ناکام ہو گئے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ پرانے لوگوں کی جگہ نئے لوگوں کو لانے سے بھی امید کی کوئی کرن نہیں جگمگائی‘ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی نہ تو کوئی ڈائریکشن ہے اور نہ کوئی ویژن ہے۔ موجودہ دور کے پیچیدہ اور ہمہ جہت حکومتی‘ ریاستی مسائل اور چیلنجوں کو کرکٹ میچ کی اصطلاحات میں بیان کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
پاکستان کے موجودہ حالات بنیادی اور دور رس نتائج کے حامل فیصلوں کے متقاضی ہیں۔ خوش قسمتی سے وزیر اعظم عمران خان پر ان کے حامیوں کا بھروسہ ختم نہیں ہوا۔ اتنے سارے یو ٹرنز کے باوجود، وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ کپتان ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ مگر پاکستان کو یُو ٹرنز کی نہیں بلکہ اباؤٹ ٹرن کی ضرورت ہے۔ 70 سال سے ہم اپنی داخلی اور خارجی سکیورٹی، خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی میں ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ ا س سے بچنے کیلئے ہم بیرونی ذرائع کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی ترقیاتی کام روک کر عوام کے لئے مشکلات کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ میں حالیہ رد و بدل کو یہ کہہ کر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو ملک کے لئے بہتر نہیں ہو گا، اسے بدل دیا جائے گا لیکن قوم کو یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آنے والے، جانے والوں سے کس لحاظ سے ملک کے لئے بہتر ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ آنے والے، جانے والوں سے کسی بھی لحاظ سے بہتر نہیں کیونکہ یہ سب پہلے سے آزمائے ہوئے ہیں۔ ان میں بیشتر وہ ہیں جو مشرف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں حکومت کی پالیسی ساز اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں‘ اور یہ وہ دور ہے جسے عمران خان ''پاکستانی معیشت کی تباہی اور موجودہ مشکلات کا سبب‘‘ گردانتے ہیں۔ کیا وہ پی ٹی آئی کے دور میں پالیسی سازی کے عمل سے وابستہ ہو کر معجزاتی کارنامے سرانجام دے سکیں گے؟ ابھی تک عوام کے سامنے ایسا کوئی نظریہ، منصوبہ یا حل پیش نہیں کیا گیا۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ نیا سیٹ اَپ ملک کو مختلف مسائل کے گرداب سے بچا کر باہر لانے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ اس کے بعد حکومت کے پاس کیا آپشن ہیں۔ جس آپشن کا امکان زیادہ ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام کڑی شرائط من و عن قبول کرے۔ مگر اس کے لئے ایف اے ٹی ایف سے این او سی لینا پڑے گا۔ کیا حکومت تمام کالعدم تنظیموں اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھرپور ایکشن لینے کے لئے تیار ہے؟ دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت کرپشن کے نام پر دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف اپنی میڈیا مہم کو اور تیز کر دے۔ شاید اس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور ایک خصوصی سیل اس مقصد کے لئے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ اس کا فائدہ غالباً یہ ہو گا کہ لوگوں کی توجہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چپقلش پر مرکوز رہے گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس سوائے اس کے اور کوئی آپشن نہیں کہ اندرونی وسائل کو مجتمع کر کے مرکزی حکومت کی بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں، دفاع اور ترقیاتی کاموں کے لئے ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ مگر پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن سے حکومت کو فری ہیڈ ملنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ حکومت ملک میں فنانشل ایمرجنسی کا اعلان کر کے بعض دستوری دفعات مثلاً 18ویں آئینی ترمیم کو معطل کر کے وسائل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان مڈ ٹرم انتخابات کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں‘ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس وقت انتخابات کی صورت میں پی ٹی آئی آسانی اور زیادہ اکثریت سے جیت سکتی ہے۔