پاک بھارت معاملات صرف دونوں ملکوں کے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ علاقائی اور خاصی حد تک عالمی سطح پر بھی کتنی اہمیت کے حامل اور توجہ طلب ہیں‘ اس کا اندازہ اس حقیقت کے بار بار سامنے آنے سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کبھی کسی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد متوقع ہو‘ جس میں پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں نے بھی شرکت کرنا ہو، تو میڈیا کا فوکس اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کانفرنس سے ہٹ کر غیر رسمی ملاقات ہو گی یا نہیں؟ اور اگر ملاقات ہو گی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ دونوں کے درمیان کشیدگی کم ہو گی یا نہیں؟ اور باہمی تنازعات کے حل کی جانب پیش قدمی ہو گی یا نہیں؟ چنانچہ سارک سربراہی کانفرنس ہو یا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس، پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں قیاس آرائیوں کا سیلاب آ جاتا ہے کہ ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں کی کانفرنس سے ہٹ کر ملاقات ہو گی یا نہیں؟ کانفرنس کے ایجنڈے کے بارے میں باتیں کم کی جاتی ہیں اور تمام تر نظریں پاکستانی اور بھارتی وفود اور ان کے رہنمائوں کی باڈی لینگویج پر ہوتی ہیں۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ٹھوس وجوہ موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں کشیدگی سے پاک پُر امن ماحول میں زندگی بسر کرنے کی جو گہری خواہش موجود ہے، اس کے پیش نظر پاکستان اور بھارت کے عوام اپنے رہنمائوں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ممالک کے عوام اپنے رہنمائوں سے غیر حقیقت پسندانہ امیدیں بھی وابستہ کر لیتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا‘ مگر مسلسل کشیدگی سے بیزاری اور جنگ کا خوف انہیں ایسا سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ دوسرے‘ ماضی میں اس قسم کی غیر رسمی اور اصل کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ملاقاتیں بارآور بلکہ اہم بریک تھرو کا باعث بھی ثابت ہوئی ہیں۔ مثلاً 1997ء میں مالدیپ کے دارالحکومت ''مالے‘‘ میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے دوران پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اندر کمار گجرال کے درمیان غیر رسمی اور کانفرنس کے اجلاس سے ہٹ کر ملاقات نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک عرصے سے قائم ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور کشمیر سمیت دیگر اہم تنازعات مثلاً سیاچن، سرکریک، دریائی پانی، تجارت اور اعتماد سازی پر سٹرکچرڈ ڈائیلاگ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نواز شریف، گجرال ملاقات نے فروری 1999ء میں بی جے پی کے رہنما اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے بس کے ذریعے دورۂ لاہور کی راہ ہموار کی تھی۔ اسی طرح سارک کی نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں کانفرنس کے دوران پرویز مشرف اور واجپائی کے مشہور ہینڈ شیک کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوئی تھی‘ اور جنوری 2004ء میں اسلام آباد میں ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان براہ راست ملاقات میں کمپوزٹ ڈائیلاگ اور پیس پراسیس کا آغاز ہوا تھا۔ دو طرفہ مذاکرات کے اس سلسلے کے تحت ہونے والے چار رائونڈز میں پاک بھارت تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی۔ دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہوا تھا۔ عوامی سطح پر رابطوں میں وُسعت پیدا ہوئی تھی۔ سری نگر اور مظفر آباد بس سروس اور لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت شروع ہوئی تھی۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اور کشمیر کے عوام مذاکرات کے اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر جیسے پیچیدہ مسائل کے حل کے امکان کی جھلک نظر آتی تھی‘ مگر نومبر 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردی کے واقعہ کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
2011ء میں پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کے درمیان ایک دفعہ پھر بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر ملاقات ہوئی‘ اور مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ٹیکنیکل سطح پر بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانے پر بات چیت بھی ہوئی‘ مگر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی وجہ سے یہ سلسلہ پھر رُک گیا۔ 2014ء میں بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی، مگر جنوری 2016ء میں پٹھان کوٹ اور مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے فوجی اڈوں پر حملوں کی وجہ سے بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس سال فروری میں پلوامہ کے واقعہ نے‘ جس میں مقبوضہ کشمیر میں ایک فوجی قافلے پر ایک خود کش حملے میں 40 سے زیادہ بھارتی فوجی مارے گئے تھے، پاکستان اور بھارت کو ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ خوش قسمتی سے دونوں طرف سے دانشمندی اور ضبط کا مظاہرہ کیا گیا اور جنگ سے بال بال بچ گئے، مگر حالات سخت کشیدہ ہیں اور کسی بڑے تصادم کا خطرہ برابر موجود ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بھارت کے عوام کو کشیدگی میں کمی اور پُرامن حالات کے قیام کی طرف پیش قدمی کا معمولی سا بھی امکان نظر آئے تو دونوں طرف سے قیاس آرائیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ یہ امکان کرغزستان کے دارالحکومت ''بشکیک‘‘ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے موقعہ پر بھی پیدا ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کی شرکت متوقع تھی‘ کیونکہ دونوں ملک 2017ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن چلے آ رہے ہیں۔ پلواما کے واقعہ اور اُس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی سخت کشیدگی کے پس منظر میں اس ممکنہ ملاقات کو خصوصی اہمیت دی جا رہی تھی‘ مگر بھارتی ذرائع نے واضح کر دیا تھا کہ اس قسم کی ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں۔ 22 مئی کو منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے دوران بھی بھارتی وزیر خارجہ کی مصروفیات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا شاہ محمود قریشی سے باضابطہ یا رسمی ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں؛ تاہم کانفرنس کے ایک اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے اور بات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ اسے ایک غیر رسمی ملاقات قرار دے رہے ہیں بلکہ شاہ محمود قریشی نے اُن جملوں کا بھی ذکر کیا‘ جن کا دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان اس غیر رسمی ملاقات میں تبادلہ ہوا؛ تاہم بھارت کی وزارت داخلہ نے اسے ایک ملاقات کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ کانفرنس کے دوران میں دونوں وزرائے خارجہ نے محض ایک دوسرے کی مزاج پرسی کی تھی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ابھی تک اس ''غیر رسمی ملاقات‘‘ پر کوئی بیان جاری نہیں کیا؛ تاہم پاکستانی حلقے اسے ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان رسمی اور باضابطہ روابط اور آگے چل کر باقاعدہ مذاکرات کی بنیاد بن سکتا ہے کیونکہ بھارت میں پارلیمانی انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی ایک دفعہ پھر بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کا دوسری بار حلف اٹھانے کے بعد مودی کی بی جے پی حکومت کی اولین ترجیحات میں یقیناً ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینا شامل ہو گا۔ خطے میں افغانستان کی جاری خانہ جنگی اور امریکہ اور ایران کے مابین سخت کشیدگی بلکہ جنگ کے اندیشے بھی بھارت کی نئی حکومت کو اپنے قوم پرستانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی بجائے علاقائی سلامتی کے تحفظ اور قیام امن پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کر دیں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی بار بار پیشکش کی جاتی رہی ہے۔ روس اور چین‘ جنہوں نے حال ہی میں جنوبی ایشیا کے معاملات‘ خصوصاً افغانستان اور پاک بھارت تنازع کے حل کیلئے سرگرم کردار ادا کرنا شروع کیا ہے، بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کیلئے مذاکرات شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ اس لئے بشکیک میں شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی ''غیر رسمی ملاقات‘‘ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس میں نئی دہلی اور اسلام آباد ایک دفعہ پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکیں۔