11اپریل سے 19مئی تک ہونے والے بھارتی پارلیمانی انتخابات کے نتائج صرف اس لحاظ سے حیران کن نہیں کہ بی جے پی کے پارٹی اتحاد ''این ڈی اے‘‘ نے دو تہائی سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں بلکہ بھارت کے سیاسی کلچر میں اب تک جو اقدار پتھر کی لکیر سمجھی جاتی تھیں‘ ووٹرز نے اُن کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ بھارتی معاشرہ ذات پات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مختلف اور متحارب دھڑوں میں منقسم ہے اور یہ معاشرتی تقسیم انتخابی نتائج کی صورت میں منعکس ہوتی ہے‘ لیکن 2014ء کی طرح 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے وقت ذات پات کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ مبصرین کے نزدیک نریندر مودی کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے نچلی اور اعلیٰ ذاتوں اور امیر اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے 90کروڑ ووٹرزکو ایک ایسی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے پر راضی کر لیا جس کے بارے میں اب تک یہ تاثر راسخ تھا کہ وہ صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔
گزشتہ تقریباً تین دہائیوں کے دوران بی جے پی کو پڑنے والے ووٹوں کے تجزیے سے اکثر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا تھا کہ بی جے پی بھارت کے صرف شمالی اور مغربی حصوں‘ جنہیں ''ہندی بیلٹ‘‘ کہا جاتا ہے‘ ہی میں پاپولر ہے جبکہ مشرقی اور جنوبی حصے میں بی جے پی کے حامی نہیں ہیں‘ مگرحالیہ انتخابات نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کیا۔ بی جے پی نے نہ صرف مشرقی ریاستوں مثلاً اورناچل پردیش اور آسام میں لوک سبھا کی بیشتر نشستیں جیتیںبلکہ اڑیسہ اور کرناٹک کے جنوبی حصوں میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کے برعکس شمالی بھارت میں واقع ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں اس دفعہ بی جے پی کو 80میں سے 64نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی ‘جسے 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں اتر پردیش سے لوک سبھا کی کوئی نشست نہیں ملی تھی‘یو پی میں 10نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ غیر متوقع نتائج مغربی بنگال سے ہیں جہاں ترینامول کانگرس کی شعلہ بیان مقررممتا بینر جی‘ بی جے پی کے طوفان کے سامنے سینہ سپر تھیں۔ بی جے پی ایک عرصے سے بنگال میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی بنگال میں صرف دو نشستیں جیت سکی تھی۔ بی جے پی نے اس دفعہ مغربی بنگال پر خاص طورپر فوکس کیا اور اس نے ریاست کی 42میں سے 18نشستیں جیت لیں۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی عام طور پر اُس پارٹی کے حق میں ووٹ کم پڑتے ہیں جس کی کسی صوبے /ریاست میں پہلے سے حکومت ہو‘ مگر بھارت کے حالیہ انتخابات میں یہ روایت ٹوٹتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ 29میں سے 19ریاستوں میں جہاں بی جے پی اور اُس کے اتحادیوں کی حکومت تھی‘ بی جے پی نے لوک سبھا کی بیشتر نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک تو ان ریاستوں کی حکومتوں کی کارکردگی اور دوسر‘ابی جے پی نے ان انتخابات کو ریاستی انتخابات کی بجائے مودی‘ راہول گاندھی مقابلے کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس میں ووٹرز نے مودی کو راہول گاندھی کے مقابلے میں بہتر قائدانہ صلاحیتوں کا مالک سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ جو امیدوار بی جے پی کی ٹکٹ پر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے‘ ان میں بڑی تعداد ان اراکین کی ہے جو دوسری یا تیسری دفعہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ بھارت کے موجودہ پارلیمانی انتخابات کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک سال پہلے جن ریاستوں( راجستھان‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ) میں کانگرس نے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دے کر حکومتیں تشکیل دی تھیں‘ وہاں سے بھی لوک سبھا کے لیے کانگرس کے امیدواروں کو شکست ہوئی۔ راجستھان میں‘جہاں کانگرس کی ریاستی حکومت قائم ہے‘ بی جے پی نے لوک سبھا کی تمام 25نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی (این ڈی اے) کی 9نشستوں کے مقابلے میں کانگرس (یو پی اے) کو صرف 2نشستیں مل سکیں۔ مدھیہ پردیش میں تو بی جے پی نے جھاڑو پھیر دیا ہے۔ وہاں لوک سبھا کی 29نشستوں میں سے بی جے پی نے 28پر قبضہ کر لیا اور کانگرس کے حصے میں صرف ایک نشست آئی۔ سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم اپ سیٹ جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں ہوا ہے۔ یہ ریاست جو ایک زمانے میں تامل قوم پرست اور ''گریٹر تامل لینڈ‘‘ کی علیحدگی پسند تحریک کا مرکز تھی‘ لوک سبھا کے لیے 39ارکان منتخب کرتی ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں آنجہانی جے للیتا کی قیادت میں ان میں سے 37نشستوں پر اے آئی اے ڈی ایم کے (AIADMK) کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ اس پارٹی کی ہر دلعزیزی سے متاثر ہو کر بی جے پی نے اس دفعہ اے آئی اے ڈی ایم کے سے انتخابی اتحاد کر لیا۔ مگر کامیابی اس کی مخالف پارٹی ڈی ایم کے (DMK)جس نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا‘ کو حاصل ہوئی اور اُس نے 32 لوک سبھا کی نشستیں جیت لیں۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی کو صرف ایک نشست ملی۔ بی جے پی نے تامل ناڈو میں اپنی انتخابی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ جنوبی بھارت کی اس اہم ریاست میں بی جے پی کی مخالفت کافی گہری ہے اور اس کی وجہ بی جے پی کی مرکزیت کی حامی پالیسیاں ہیں۔ تامل ناڈو کے انتخابی نتائج کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یعنی سی پی ایم‘ جس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تین دہائیوں پر محیط مغربی بنگال میں حکومت کی اور جسے ایک عرصے تک کانگرس کے بعد پارلیمنٹ میں سب سے مضبوط پارٹی کی حیثیت حاصل تھی‘ جن پانچ امیدواروں کو لوک سبھا میں بھیجنے میں کامیاب ہو سکی ہے‘ ان میں سے چار کا تعلق تامل ناڈو سے ہے۔ اس کے مقابلے میں کیرالہ جہاں سی پی ایم کی ریاستی حکومت ہے‘ میں اس کا صرف ایک امیدوار کامیاب ہو سکا ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ مغربی بنگال اور کیرالہ کے بعد اب تامل ناڈو کی ریاست بھارتی کمیونسٹوں کی جائے پناہ بنتی جا رہی ہے۔ 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اتر پردیش‘ بہار‘ پنجاب اور راجستھان پر مشتمل ہندی بیلٹ میں اپنا غلبہ قائم رکھنے کے علاوہ بھارت کی مشرقی ریاستوں میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور جنوب میں بھی اپنی موجودگی میںاضافہ کیا ہے۔
بی جے پی نے کامیابی کیسے حاصل کی؟ مبصرین کے نزدیک اس کی تین وجوہات ہیں: مودی حکومت نے اپنی پچھلی مدت میں نچلی ذاتوں‘ پس ماندہ قبائل اور غریب طبقات پر فوکس کر کے اُن کے لیے بہت سے فلاحی اقدامات کئے اور انتخابات میں ان اقدامات کی خوب تشہیر کی گئی۔ دوسرے بی جے پی کی اس کامیابی میں پارٹی کے صدر امیت شاہ کی انتظامی صلاحیتوں‘ بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا بہت دخل ہے۔ بی جے پی نے ان انتخابات کی تیاری‘ تین سال پہلے ہی شروع کر دی تھی اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان ریاستوں پر زیادہ توجہ دی جہاں 2014ء میں اس کے امیدوار زیادہ تعداد میں منتخب نہیں ہو سکے تھے‘ مگر حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب میں اضافہ نمایاں تھا۔ امیت شاہ نے تقریباً 10لاکھ پولنگ سٹیشنوں کے ہر بوتھ پر دس سے پندرہ رضا کاروں کی ایک ٹیم بٹھائی جس کا کام کسی قسم کی ممکنہ دھاندلی کو روکنا اور بی جے پی کے حامی ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو پولنگ سٹیشنوں پر لانا تھا۔ تیسرے بی جے پی نے بھارت کی سو ارب آبادی کے دو تہائی نوجوان مردوں اور عورتوں کی تعداد پر بھرپور توجہ مرکوز کر کے انہیں ذات پات سے بالاتر ہو کر قوم پرستی اور ہندوتوا کے نشے میں سرشار کر کے ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر لیا۔ اس سے ذات پات یا اقلیتوں کی بنیاد پر سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیاں پیچھے رہ گئیں اور بی جے پی نے ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑ لئے۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے پلوامہ کے واقعہ کو اچھال کر عوام کے اندر ملک کی سلامتی کے لیے خدشات پیدا کر کے اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا۔