"DRA" (space) message & send to 7575

بھارت : انتخابات کے بعد

1984-85 میں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کو صرف دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں کانگرس 545 اراکین کے ایوان میں 426 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ انتخابات اندرا گاندھی کے قتل کے بعد منعقد ہوئے تھے جس کی وجہ سے کانگرس کو زیادہ ووٹ ملے‘ لیکن بی جے پی نے ہمت نہیں ہاری اور نئی حکمتِ عملی کے تحت جدوجہد جاری رکھی۔ 1986 میں لال کرشنا (ایل کے) ایڈوانی نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔ ایڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے پارٹی کے قومی ایجنڈے میں چار بڑے مقاصد کے حصول کو انتخابی حکمتِ عملی کی بنیاد بنایا۔ ایک‘ بھارت کو ایٹمی قوت بنانا، دوسرا‘ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر‘ تیسرا‘ تمام مذاہب کے پیروکاروں کیلئے ایک ہی سول کوڈ‘ اور چوتھا‘ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی شق 370 کو حذف کرنا۔ (اب اس کے ساتھ شق 35-A کو ختم کرنے کا ارادہ بھی شامل ہے)۔ ہندو انتہا پسندانہ قوم پرستی کے اس ایجنڈے کو لے کر جب بی جے پی میدان میں اتری تو اسے ہندو آبادی کے تمام طبقات کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی اور اسی بنیاد پر 1996 کے انتخابات میں بی جے پی نے 161 نشستیں جیت کر اکثریتی پارٹی کا مقام حاصل کیا اور مرکز میں پہلی دفعہ مخلوط حکومت تشکیل دی جس کے سربراہ اٹل بہاری واجپائی تھے۔ مگر یہ حکومت صرف تیرہ دن برقرار رہ سکی کیونکہ وزیر اعظم واجپائی اپنے تقرر کے بعد لوک سبھا سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ اس کے بعد 1998 میں پھر پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میں بی جے پی نے اگرچہ پہلے سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کیا‘ مگر حکومت بنانے کیلئے اسے پھر دوسری سیاسی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا۔ یہ حکومت بھی صرف 13 ماہ قائم رہی کیونکہ تامل ناڈو کی اے آئی اے ڈی ایم کے (A I A D M K) پارٹی مخلوط حکومت سے الگ ہو گئی اور وزیر اعظم واجپائی کو اکثریت کھو جانے کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا؛ تاہم اسی حکومت کے دوران یعنی مئی 1998 میں واجپائی کی حکومت نے ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو کھلے عام ایٹمی ہتھیاروں کا مالک بنا دیا۔ جواب میں پاکستان بھی 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔ 1999 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی نے واجپائی کی قیادت میں ایک دفعہ پھر مرکز میں حکومت قائم کی جسے پہلی دفعہ پوری مدت (1999-2004) حکومت کرنے کا موقعہ ملا۔ اس مدت کے دوران میں وزیراعظم واجپائی کا ''دوستی بس سروس‘‘ کے ذریعے لاہور کا دورہ، مئی 1999 میں کارگل کی جنگ اور جنوری 2004 میں کمپوزٹ ڈائیلاگ پراسیس کے تحت پاک بھارت مذاکرات کا احیا جیسے تاریخ ساز واقعات بھی رونما ہوئے۔ 
ایٹمی دھماکے کرنے کا وعدہ پورا کرنے کے بعد بی جے پی نے دیگر تین وعدوں یعنی رام مندر کی تعمیر، آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور کامن سول کوڈ رائج کرنے کی کوشش کی‘ مگر اپوزیشن خصوصاً علاقائی سیاسی جماعتوں کی طرف سے زبردست مخالفت کے پیش نظر اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔ 2004 میں غیر متوقع طور پر اسے کانگرس کی سربراہی میں بننے والے اتحاد ''یونائیٹڈ پروگریسو الائنس‘‘ کے ہاتھوں شکست ہو گئی؛ تاہم 2014 کے انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اکیلے 282 نشستیں حاصل کرکے مرکز میں ایک مضبوط حکومت قائم کی۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بن کر بھارت میں ہندتوا نظریئے کا نہ صرف خوب پرچار کیا بلکہ بھارت کی تاریخ، ثقافت، تعلیم اور معاشرت کو اسی انتہا پسندانہ ہندو قومی نظریئے کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی‘ لیکن یہ نہ تو آرٹیکل 370 کو ختم کر سکی اور نہ ہی ایودھیا میں رام مندر تعمیر کر سکی۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک یہ کہ اسے بائیں بازو کی جماعتوں اور کانگرس کے علاوہ دیگر قد آور علاقائی سیاسی رہنماؤں مثلاً تامل ناڈو میں آنجہانی جے للتا، بنگال میں ممتا بینرجی اور آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کی مخالفت کا سامنا تھا۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ بی جے پی کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل تھی‘ مگر ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہ تھی۔ اس کی وجہ سے نریندر مودی کی پہلی حکومت اپنی پارٹی کے ایجنڈے کے مطابق کامیابی سے قانون سازی نہیں کر سکتی تھی جبکہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کیلئے تو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی‘ مگر بھارتی آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت ترمیم کیلئے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے علاوہ ملک کی 29 ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں سے نصف کی منظوری بھی درکار ہے۔ پہلی مدت (2014-2019) کے مقابلے میں اب بی جے پی کو نسبتاً زیادہ آسانیاں حاصل ہیں۔ اسے نہ صرف ملک کے شمال مشرق اور مغرب بلکہ جنوب میں بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ تامل ناڈو میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بینر جی 2021 تک ریاست کی بدستور وزیر اعلیٰ رہیں گی، مگر ریاست کی 42 میں سے لوک سبھا کی 18 سیٹیں جیت کر اور 20 فیصد سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرکے بی جے پی نے مغربی بنگال میں مضبوطی سے قدم جما لئے ہیں اور دو سال بعد ریاستی انتخابات میں ہو سکتا ہے بی جے پی ترینامول کانگرس کی جگہ حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آ جائے۔
اس وقت 245 اراکین پر مشتمل بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا، راجیہ سبھا میں بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل اس کی اتحادی جماعتوں کے نمائندہ ارکان کی تعداد 101 ہے لیکن جلد ہی اسے 6 اور ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی جن میں تین آزاد اور تین نامزد ارکان شامل ہیں۔ اگلے سال یعنی 2020 میں اس کی صفوں میں 19 مزید ارکان کی شمولیت متوقع ہے کیونکہ راجیہ سبھا کے کچھ ارکان اپنی چھ سالہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ خالی ہونے والی نشستوں کیلئے جن ریاستوں سے نمائندے چُنے جائیں گے، اُن میں اتر پردیش، بہار، تامل ناڈو، گجرات، مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ اس طرح بی جے پی اور اس کے اتحادی بڑی آسانی سے راجیہ سبھا میں 123تا 125 ارکان پر مشتمل اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 
راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی کی حکومت آرٹیکل 370 اور 35-A میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سلسلے میں ریاست جموں و کشمیر میں بی جے پی کے یونٹ نے فوری اقدام کا بھی مطالبہ کر دیا ہے لیکن بی جے پی کیلئے یہ مقصد حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے بھارت میں اس کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ کانگرس اپنے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 اور 35-Aکے دفاع کا پہلے ہی وعدہ کر چکی ہے اور جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس‘ جس نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست کی چھ لوک سبھا نشستوں میں سے تین (سری نگر، بارہ مولہ اور انتنانگ) پر قبضہ کر لیا ہے، کے رہنما فاروق عبداللہ نے اس مسئلے پر سخت بیان دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ریاست کے عوام آرٹیکل 370 کی منسوخی کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ جہاں تک رام مندر کا تعلق ہے، ہندو انتہا پسندوں نے اُس کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ مگر بھارتی سپریم کورٹ نے یہ معاملہ ایک مصالحتی کمیٹی کے سپرد کر رکھا ہے اور جب تک اس کمیٹی کا متفقہ فیصلہ نہیں آ جاتا، اس پر بھی پیش رفت کا امکان کم ہے۔ البتہ جس طرح نریندر مودی کی پچھلی حکومت نے سکولوں کی نصابی کتب، ملک کے تدریسی اور ریسرچ اداروں کی تصانیف پر ہندتوا کی چھاپ لگانے کی کوشش کی اسی طرح اگلے پانچ برسوں میں بھی اس عمل کو جاری رکھے گی۔ اس طرح اگلے پانچ برسوں میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کیلئے بھارت کی زمین بدستور تنگ رہے گی۔ اگرچہ مودی نے اپنے ایک آدھ بیان میں اقلیتوں کا اعتماد جیتنے پر زور دیا ہے اور انتخابات میں کامیابی پر جو ٹویٹ بھیجا تھا، اُس میں بھی نریندر مودی نے ملک میں ایک ایسے ترقیاتی پروگرام کی نوید سنائی تھی جس سے سب کو مستفید ہونے کا موقعہ ملے گا؛ تاہم بھارت میں بی جے پی کے نظریے سے اختلاف کرنے والے لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ اور یہ لوگ زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ اپوزیشن خصوصاً کانگرس ابھی صدمے کی حالت میں ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لوک سبھا میں ان کے پاس 200 کے قریب نشستیں ہیں اور اگر اپوزیشن والے آپس میں اتحاد اور مشاورت کو اہمیت اور فروغ دیں تو وہ بی جے پی کے انتہا پسندانہ اقدامات کے خلاف موثر مزاحمت پیش کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں