تقریباً ایک ماہ کے وقفے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اپنی افغان ڈپلومیسی کا پھر آغاز کر دیا ہے۔ افغانستان میں امن اور مصالحت کی تلاش کیلئے افغان نژاد امریکی سفارت کار کا یہ ساتواں رائونڈ ہے۔ اس سے قبل چھ رائونڈز میں زلمے خلیل زاد نے اپنے وفد کے ہمراہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے وفد‘ جس کی قیادت طالبان کے ایک سینئر رہنما ملا عبدالغنی برادر کر رہے تھے، کے ساتھ مذاکرات کئے تھے۔ اس کے باوجود کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی۔ افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان جنگ جاری ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے دوران میں شہری آبادی کا جتنا نقصان ہوا ہے، وہ اس سے پہلے کے تمام برسوں سے زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق طالبان کے حملوں، افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی لڑائیوں اور امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں گزشتہ سال یعنی 2018ء میں 3,8021 شہری ہلاک ہوئے۔ ان میں 900 کے قریب تعداد بچوں کی تھی۔ ان کے علاوہ 7,189 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد میں شہری جسم کے مختلف اعضا گنوا کر زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئے۔ انسانی زندگیوں کے اس ہولناک کھیل کو بند کرنے کیلئے امریکی وفد نے طالبان کے سامنے جنگ بندی کی تجویز رکھی تھی‘ مگر طالبان نے اسے مسترد کر دیا اور افغانستان کی سرکاری فوجوں اور ریاستی ٹھکانوں پر اپنے حملے جاری رکھے۔ حتیٰ کہ اس دفعہ طالبان نے ماہِ رمضان کے دوران اور عیدالفطر کے موقعہ پر بھی جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا۔ طالبان اپنے موقف پر بدستور ڈٹے ہوئے ہیں کہ امریکی فوجوں‘ جنہیں وہ ''بیرونی حملہ آور‘‘ کہتے ہیں‘ کے مکمل انخلا تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
سوال یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اب تک کیے جانے والے مذاکرات میں انتہائی سست بلکہ نہ ہونے کے برابر پیش رفت کے پیش نظر کیا آئندہ کسی کامیابی کی اُمید کی جا سکتی ہے؟ بیشتر مبصرین کی رائے میں اس کے بہت کم امکانات ہیں کیونکہ طالبان نے بعض بنیادی نکات پر غیر لچک دار موقف اختیار کر رکھا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں طالبان کی طرف سے افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت سے صاف انکار ہے۔ طالبان موجودہ یعنی صدر اشرف غنی کی حکومت کو ایک کٹھ پتلی اور ''ناجائز‘‘ حکومت قرار دیتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ وہ صرف امریکہ کے ساتھ اور وہ بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر بات چیت کریں گے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے بلکہ اس کے لئے ایک وسیع تر معاہدے کے اہم نکات بھی طے کر لئے گئے ہیں، طالبان نے اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کی۔ جبکہ گزشتہ رائونڈ کے اختتام پر زلمے خلیل زاد نے صاف کہہ دیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کیلئے معاہدہ جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر معاہدہ ہی ہو سکتا ہے‘ جس میں امریکی افواج کے انخلا کے علاوہ، جنگ بندی اور انٹرا افغان ڈائیلاگ یعنی افغانستان کی موجودہ حکومت کی شرکت بھی معاہدے کے لازمی جزو ہوں گے۔ اس طرح تقریباً ایک سال کی کوششوں کے باوجود افغانستان کے مسئلے پر مذاکرات بدستور تعطل کا شکار ہیں جس کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے؛ تاہم بعض حلقے جن میں خود زلمے خلیل زاد شامل ہیں اس رائے کے حامل ہیں کہ افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار فریقین سست رفتاری سے مگر قدم بقدم ایک حل کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ختم ہونے والے مذاکرات کے بارے میں زلمے خلیل زاد کی رائے تھی کہ یہ ''مثبت اور تعمیری‘‘ تھے۔ خود طالبان نے بھی اعتراف کیا کہ گزشتہ مذاکرات میں ماحول خوشگوار تھا۔ فریقین نے ایک دوسرے کا موقف ''دھیان اور صبر‘‘ سے سنا۔ اس قسم کے الفاظ اگرچہ بذاتِ خود کسی پیش رفت کی طرف اشارہ نہیں کرتے مگر ڈپلومیسی میں ہر لفظ بہت احتیاط اور جانچ پڑتال کے بعد استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے کسی ایک خاص تاثر کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ بڑی احتیاط سے چُنے ہوئے ان الفاظ میں ایک پیغام پنہاں ہوتا ہے۔ مذاکرات کے بارے میں ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین میں اعتماد پیدا ہو رہا ہے اور اعتماد ہی کسی معاہدے کی سب سے اہم بنیاد ہے۔
طالبان یا اُن کے قریبی حلقوں کی طرف سے اب تک ان مذاکرات کے بارے میں جو تبصرے آئے ہیں، اُن کے مطابق طالبان کو اب اس بات کا یقین ہوتا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج نکالنے میں واقعی مخلص ہے۔ اس یقین کو پیدا کرنے میں خود امریکہ کے چند اقدامات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے مثلاً امریکہ نے افغان حکومت کی شرکت کے بغیر مذاکرات کا آغاز کرکے طالبان کی ایک اہم شرط تسلیم کر لی۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی فوجی دستے کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا اور حال ہی میں افغانستان کے لئے مختص امریکی فنڈز کو کسی اور مد میں خرچ کرنے کیلئے ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ انہی اقدامات سے متاثر ہو کر طالبان نے عدم پیش رفت کے باوجود مذاکرات کو جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ ماضی کے برعکس، مذاکرات کو جاری رکھنا بذات خود ایک بڑی کامیابی اور مستقبل میں امید کی بنیاد ہے۔ مگر امریکی کابل حکومت کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ طالبان جنگ بندی اور کابل انتظامیہ کے ساتھ مل کر امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں ایک ایسے سیٹ اپ کے قیام پر متفق ہو جائیں جو ایک طرف افغانستان میں امن اور استحکام کی ضمانت دے اور دوسری طرف یہ یقینی بنائے کہ افغانستان کی سرزمین کو آئندہ امریکہ یا کسی ہمسایہ ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیںکیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ طالبان کو افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے اور اُنہیں مذاکراتی عمل میں نمائندگی دینے پر راضی کریں۔ مگر گزشتہ برس نومبر میں جب زلمے خلیل زاد اور اُن کے وفد کی طالبان کے ساتھ پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو طالبان نے اس دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف احتجاج کے طور پر مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا لیکن علاقائی اور عالمی سفارتی محاذ پر، حالات طالبان کے خلاف جا رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک کے علاوہ روس، چین اور یورپی ممالک کی طرف سے طالبان پر اپنے موقف میں لچک دکھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور طالبان سے ہمدردی رکھنے والے دیگر ممالک کی طرف سے بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ کی حمایت کی جا رہی ہے مگر چونکہ زمینی حقائق طالبان کے حق میں ہیں اور لڑائی میں انہیں بالا دستی حاصل ہے، اس لئے براہ راست دباؤ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔
ان حالات میں درمیانی راہ نکالنے کی کوشش جا رہی ہے۔ مثلاً طالبان اور غیر سرکاری افغان سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں روس اور چین کی مدد سے دو کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ ایک گزشتہ برس نومبر میں ماسکو منعقد ہوئی تھی جس میں پاکستان اور بھارت سمیت بارہ ملکوں نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں طالبان کے ایک وفد نے بھی شرکت کی تھی مگر طالبان نے اپنے موقف میں لچک دکھانے سے انکار کر دیا تھا؛ تاہم مذاکرات کے چھٹے رائونڈ (مئی 2019) کے بعد افغانستان کے محاذ پر چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں امن کی طرف کچھ پیش قدمی ممکن ہو گی۔ ان میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری بھی شامل ہے۔ مکہ مکرمہ میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ افغان صدر 27 جون کو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے موجودہ دورے اور سفارتی کوششوں اور پاک افغان تعلقات میں بہتری کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے امکانات آہستہ آہستہ روشن ہو رہے ہیں۔