پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور محاذ آرائی کی بجائے دونوں ملکوں کو امن اور تعاون کی راہ پر ڈالنے کے حوالے سے 2004ء میں متنازعہ امور کے حل کیلئے دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ ان متنازعہ امور میں کشمیر، سرکریک، سیاچن کے علاوہ کشمیر سے بہہ کر پاکستان آنے والے دریائوں پر بھارت کی طرف سے بند تعمیر کرنے کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ تجارت، کھیلوں اور ثقافت کے شعبوں اور عوامی رابطوں کو فروغ دینا بھی اس مذاکراتی عمل میں شامل تھا۔ 2008ء تک چار سال کے عرصے میں اس عمل میں اگرچہ کشمیر کے تنازع کے حل کی جانب کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی؛ تاہم دو طرفہ تجارت، آمدورفت کے ذرائع اور عوامی سطح پر روابط کے فروغ میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ دونوں طرف سے اس امید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اگر بات چیت کا یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہا اور تجارت، ثقافتی شعبے میں تعاون اور عوامی سطح پر روابط میں اضافہ ہوتا رہا تو باہمی اعتماد پر مبنی ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے، جس میں کشمیر جیسے پرانے اور پیچیدہ مسائل کے مستقل حل کیلئے بھی راہ نکل آئے گی۔ لیکن نومبر 2008ء میں ممبئی کے واقعات نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ اس کے بعد ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی مگر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ میں تیزی اور پھر پٹھان کوٹ اور اُڑی میں بھارتی افواج کے اڈوں پر دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے نہ صرف مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہو سکا‘ بلکہ دونوں ملکوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی۔ اس کشیدگی نے فروری 2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر بھارتی فوجی قافلے پر ایک خود کش حملے کی وجہ سے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لی اور دونوں ملک ایک خوفناک جنگ بلکہ ایٹمی تصادم سے بال بال بچے۔ لیکن پلوامہ واقعہ کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارت تقریباً بند کر رکھی ہے۔ دونوں کے درمیان عام شہریوں کا آنا جانا بھی بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ 2004ء میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے تحت باہمی تعلقات میں جو بہتری آئی تھی، وہ زائل ہو چکی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے حال ہی میں کہا کہ پاک بھارت تعلقات جتنے آج خراب ہیں، اتنے اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔
ان کا کہنا بالکل درست ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس پر بین الاقوامی برادری کو سخت تشویش ہے‘ اور اس کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو تاکہ کشیدگی کم ہو اور جنگ کا خطرہ دور ہو‘ لیکن بھارت ابھی اس پر آمادہ نہیں‘ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے متعدد بار مذاکرات کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو پاکستان کے امن پسندانہ عزائم کا یقین دلاتے ہوئے مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش میں پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کر دیا تھا کہ بات چیت کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔ امن دونوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر جنوبی ایشیا سے غربت، پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بھارت کے غیر لچکدار رویے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے باقی تمام رکن ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی‘ مگر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو مدعو نہیں کیا گیا‘ حالانکہ پانچ سال قبل ایسے ہی موقع پاکستان سے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور نواز شریف نے مئی 2014ء میں نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی کی تھی۔ اس موقع پر دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں دو طرفہ مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع ہونے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسی قسم کے نتیجے کی امید کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پیس ڈپلومیسی جاری رکھی‘ اور بھارتی وزیر اعظم کو دوسری بار یہ عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد کا خط بھی لکھا۔ اسی طرح بھارت کے نئے وزیر خارجہ جے شنکر کے تقرر پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی مبارکباد کا رسمی خط لکھا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھیجے جانے والے یہ خطوط رسمی کارروائی اور سفارتی آداب کے عین مطابق ہیں۔ اسی طرح بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی طرف سے جوابات بھی رسمی کارروائی ہے اور ان جوابات کے مندرجات بھی رسمی ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستانی میڈیا نے ان کا مطلب غلط سمجھا۔ ان جوابی خطوط میں بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ہم منصب کو بتایا کہ وہ بھی مذاکرات کے ذریعے اختلافات دور کرنے میں یقین رکھتے ہیں لیکن ایسا ماحول پیدا کرنا ضروری ہے جو دہشت گردی سے پاک ہو۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مذاکرات کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود بھارت اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حال ہی میں ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل کو بتایا کہ وزیر اعظم مودی ابھی اپنے ملک کے پارلیمانی الیکشن کے موڈ سے باہر نہیں نکل سکے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف سخت گیر مہم چلائی تھی‘ جس کا مقصد پاکستان مخالف ہندو انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی رائے میں چونکہ بھارتی انتخابات کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ اس لیے ان انتخابات کے دوران پاکستان کے خلاف اختیار کئے گئے سخت رویے کی جگہ وزیر اعظم مودی نرم رویہ اختیار کرکے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی رائے میں مستقبل قریب میں پاک بھارت مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی میڈیا میں بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے خطوط کے مندرجات کو بھارت کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی سے تعبیر کیا گیا تو بھارتی حکومت کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا اور واضح کیا کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو مذاکرات کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ اس کی تائید کرتے ہوئے خود پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اعترافی بیان جاری کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنے پاکستانی ہم منصب کو بھیجے جانے والا خط ایک رسمی کارروائی تھی۔ اسی طرح بھارت کی طرف سے موصول ہونے والے خط میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ بھی ایک رسمی کارروائی ہے۔
پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی بار بار پیشکش قابل فہم ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان بین الاقوامی برادری کو اپنے پرامن ہونے کا یقین دلانا چاہتا ہے کیونکہ دنیا کی نظر میں پاک بھارت کشیدگی کا برقرار رہنا خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت اس پیشکش کا منفی جواب دے کر پاکستان پر دبائو میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی حکمت عملی یہ ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو پلوامہ واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر اسے الگ تھلگ کر دیا جائے۔ اور اس طرح جب دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا اہتمام ہو تو پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو تاکہ بھارت اپنی شرائط پر پاکستان کو مذاکراتی عمل میں شریک ہونے پر مجبور کر سکے۔ اپنی تقرری کے فوراً بعد بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی اپنے ایک بیان میں اسی قسم کی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یہ مذاکراتی عمل پہلے سے مختلف ہو گا اور اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف دہشت گردی کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھانا پڑے گا بلکہ کشمیر کو بھی بھولنا پڑے گا۔ 2004ء میں شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ دیگر تنازعات کے ہمراہ کشمیر کو بھی اس کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ پلوامہ کے واقعہ کے بعد پاک بھارت تنازع اور جنوبی ایشیا کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں ایک بنیادی تبدیلی آ چکی ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر بھارت کشمیر کو مذاکراتی عمل سے الگ رکھنا چاہتا ہے، مگر پاکستان کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ نتیجہ یہ کہ پاک بھارت تعلقات میں مستقبل قریب میں کوئی نمایاں تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔