"DRA" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟

گزشتہ دنوں صحت افزا مری میں واقع بھوربن میں افغانستان میں امن اور مصالحت کو فروغ دینے کیلئے ایک دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں افغانستان کی ڈیڑھ درجن سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 50سے زائد افغان سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ شرکت کرنے والوں میں افغان امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیلی، جمعیت الاسلام پارٹی کے سربراہ استاد عطا محمد نور اور افغانستان کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے ایک امیدوار حنیف اتمر بھی شامل تھے۔ اطلاعات کے مطابق سابق صدر حامد کرزئی اور ازبک لیڈر رشید دوستم کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مگر وہ بعض وجوہات کی بنا پر شرکت نہ کر سکے۔ اگرچہ اپنی کانفرنس میں طالبان اور افغان حکومت کی نمائندگی نہیں تھی اور اس کے اہتمام میں افغانستان کے کسی ریسرچ ادارے یا غیر سرکاری تنظیم کو شامل نہیں کیا گیا تھا تاہم افغانستان میں تلاش امن کیلئے مختلف شکلوں میں جو کوششیں جاری ہیں، ان کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ کانفرنس بھی مفید کردار ادا کر سکتی ہے۔ کانفرنس کے موضوعات میں تجارت، صحت، باہمی روابط کا فروغ اور پاکستان میں ایک عرصہ سے مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کی واپسی جیسے معاملات شامل تھے۔ ان موضوعات کا تعلق نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات بلکہ عوامی فلاح و بہبود‘ دہشت گردی کی روک تھام اور سکیورٹی سے بھی ہے۔ اس لئے اس کانفرنس کو دیگر کوششوں سے اس لئے الگ اور منفرد قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں علاقائی سلامتی کے علاوہ عام آدمی کو درپیش مسائل کا بھی احاطہ کیا گیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تسلیم کیا کہ ایک طویل مشترکہ سرحد، تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات اتنے خوشگوار نہیں رہے جتنے کہ ہونے چاہئیں۔ اس کیلئے انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک عرصہ سے پائی جانے والی بدگمانی اور عدم اعتماد کو ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بیرونی طاقتوں، جن سے عام طور پر ہماری مراد بھارت ہوتی ہے، نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان رکاوٹوں کو راستے سے ہٹا کر آگے بڑھا جائے۔ اس کے لئے پاکستان ہر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہے‘ ان میں افغانستان کو پاکستان سے کسی قسم کی شکایت یا خدشات کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ وزیر خارجہ کی طرف سے برملا اعلان کیا کہ پاکستان افغانستان میں کسی قسم کی سٹریٹیجک ڈیپتھ کا خواہشمند نہیں ہے اور اگر کسی وقت پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ سوچ موجود تھی تو وہ اب ختم ہو چکی ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں۔ افغانستان کا موجودہ مسئلہ دیرینہ اور پیچیدہ ہی نہیں، بلکہ ہمہ جہتی بھی ہے اور اس کا ایک انتہائی اہم پہلو ایک دوسرے کے بارے میں پائی جانے والی پرسیپشنز ہیں جو غلط اور بے بنیاد بھی ہو سکتی ہیں لیکن ان کی متواتر موجودگی، دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے میں سب سے اہم سبب ہے۔ افغانستان میں عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے اور پاکستان کو شکایت ہے کہ بھارت افغانستان میں قدم جما کر تخریب کاری اور دہشت گردی کے ذریعہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ دیگر الفاظ میں پاکستان کو یقین ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن افغانستان کی طرف سے متعدد بار اس کی پرزور تردید کی جا چکی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی اس الزام کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملک ایک دوسرے کے بیانات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
آج کے کالم کا یہی موضوع ہے کہ پاکستان اور افغانستان ہم مذہب ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملک بھی ہیں۔ دونوں کے درمیان 2400 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرحد ہے۔ اس سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ ایک ہی زبان بولتے ہیں، مشترکہ ثقافتی ورثے کے مالک ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ تجارت، کاروبار، تعلیم، علاج معالجہ، روزگار اور دیگر اہم ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر روز ہزاروں افراد اس سرحد کو عبور کرکے ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ پھر بھی ڈر، خدشات‘ گلے اور شکوے موجود رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں تعاون اور مفاہمت کو فروغ دینے کیلئے دوطرفہ اور کثیر جہتی میکنزم کی کمی نہیں۔ ان میں پاکستان، افغانستان اور افغانستان میں نیٹو فورسز کی کمان پر مشتمل ٹرائی لیٹرل کمیشن خصوصی طور پر قابل ذکر ہے‘ کیونکہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان، افغانستان اور نیٹو فورسز کے درمیان افغانستان میں جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کیلئے مشترکہ اقدامات کرنا ہے۔ اس کمیشن کے ہر سال باری باری اسلام آباد اور کابل میں اجلاس ہوتے رہے ہیں۔ مگر امریکہ اور افغانستان کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا کہ پاکستان اپنی سرزمین طالبان اور ان کے اتحاد، حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ ?
ریاستی سطح پر دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے گزشتہ 18 برسوں کے دور میں پاکستان اور افغانستان کی ہر حکومت نے ایک دوسرے کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر روابط نہ صرف قائم رکھے بلکہ ان کو فروغ دیا۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی دو درجن کے قریب پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں‘ لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے اور بہتر تعلقات کے راستے میں حائل رکاوٹیں قائم رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی افغانستان کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی ابھی گزشتہ روز ہی اپنا پاکستان کا دورہ مکمل کیا ہے۔ امید پیدا ہوئی ہے کہ صدر اشرف غنی کی اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے نتیجے میں باہمی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور دونوں ملک مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوشش کریں گے۔ مگر گزشتہ تقریباً 40 برس کے دوران پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی اہم پیش قدمی کیلئے فریقین کو ایک دوسرے کے بارے میں اپنا مائنڈسیٹ بدلنا پڑے گا۔ افغانستان کے بارے میں جب پاکستان کی طرف سے کسی اقدام کا سوچا جاتا ہے تو سکیورٹی کے تقاضوں کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح افغانستان کی طرف سے جب کوئی مطالبہ پیش کیا جاتا ہے تو افغان حکام پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرکے صرف انسانی پہلوؤں پر اصرار کرتے ہیں۔ پاکستان کے راستے بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت اور راہداری کا معاملہ اور پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ دونوں ملکوں میں اس لئے وجۂ تنازعہ بنا ہوا ہے کہ توازن قائم نہیں رکھا جاتا۔ افغانستان جنوبی ایشیا کے باقی سات ممالک کی طرح ''سارک‘‘ کا رکن اور جنوبی ایشیا فری ٹریڈ ایریا کا حصہ ہے۔ مگر اسے پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر پاکستان، افغانستان کو اپنی سرزمین سے براستہ سڑک بھارت کے ساتھ تجارت کی سہولت دیتا ہے تو اس سے نہ صرف افغانستان کی معیشت مضبوط ہو گی بلکہ سب سے اہم نتیجہ افغانستان میں پاکستان کیلئے خیر سگالی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اسی طرح پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنی بین الاقوامی سرحد بار بار بند نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو ہر روز ہزاروں کی تعداد میں تعلیم، روزگار، علاج معالجہ اور دیگر اہم ضروریات کیلئے سرحد سے ادھر اور اُدھر آتے جاتے ہیں؛ تاہم افغانستان کو بھی ایک ایسی سرحد کے سکیورٹی مسائل اور پاکستانی خدشات کو تسلیم کرنا پڑے گا، جسے ہر کوئی جب چاہے جہاں چاہے بغیر کسی روک ٹوک کے عبور کر سکتا ہے۔ علاقائی سرحدیں، کسی بھی ریاست کا اہم ستون ہوتی ہیں اور اس کی حفاظت ریاست کی بقا کا تقاضا ہے۔ اس کیلئے اس تقاضے کو پورا کرنے کیلئے اگر پاکستان بارڈر فینسنگ جسے اقدام کرتا ہے تو افغانستان کو بھی اس کی اہمیت تسلیم کرنی چاہئے۔ آئندہ چند مہینوں میں افغانستان پر مختلف سطحوں پر ہونے والے مذاکرات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن پاک افغان تعلقات میں پیش قدمی کے لئے دونوں طرف سے روایت سے ہٹ کر ڈرامائی اقدامات کی ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں