حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے حال ہی میں انگریزی زبان کے ایک روزنامہ میں ایک مضمون کے ذریعے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ آزاد کشمیر کی وادیٔ نیلم میں واقع تاریخی ہندو مندر ''Sharda Peeth‘‘ کو ہندو زائرین کیلئے کھول دیا جائے۔ ڈاکٹر رمیش کمار پاکستان ہندو کونسل سے تعلق رکھنے والے اراکین پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی خصوصی دعوت پر وادیٔ نیلم کا دورہ کر رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق تقریباً دو ہزار سال پہلے تعمیر ہونے والا یہ مندر شاردا دیوی کے نام سے منسوب ہے۔ سنسکرت میں شاردا کا مطلب علم و دانش اور حکمت ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے ملک بھر سے ہندو اس مندر کی یاترا کیلئے آتے تھے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ رک گیا۔ ڈاکٹر کمار کے مطابق 1947ء کے بعد وہ پہلے ہندو ہیں، جنہیں اس مندر کی یاترا کا موقعہ ملا‘ اور اس کیلئے وہ حکومت آزاد جموں و کشمیر کے مشکور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نہ صرف حکومتِ آزاد جموں و کشمیر بلکہ حکومت پاکستان سے بھی اپیل کی کہ شاردا مندر کی بحالی کا کام مکمل کرکے اسے ابتدائی طور پر کشمیری اور پاکستانی ہندوئوں کیلئے کھول دیا جائے اور اس کے بعد بھارت سے بھی یاتریوں کو آنے کی اجازت دی جائے۔ ڈاکٹر کمار کے مطابق اس سے نہ صرف وادیٔ نیلم میں سیاحت کو فروغ ملے گا، بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی، علاقائی امن، تعاون اور مفاہمت کو تقویت بھی حاصل ہو گی۔ شاردا پیٹھ کو یاتریوں کیلئے کھولنے کا ہندو مت کے پیروکاروں کی طرف سے ایک عرصہ سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ امید ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان‘ دونوں کی حکومتیں اس پر راضی ہو جائیں گی۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں رہنے والی ہندو برادری مستفید ہو گی، بلکہ بھارت اور دنیا بھر کے ہندو اپنے دھرم کے اس اہم مقام کی یاترا بھی کر سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن بنانے کے جس عزم کا اعلان کر رکھا ہے، ڈاکٹر رمیش کمار کی یہ تجویز اس میں بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔
پاکستان میں مذہبی سیاحت (Religious Tourism) کی بہت گنجائش ہے کیونکہ اس میں اسلام کے علاوہ بدھ مت، سکھ مذہب اور ہندو مذہب کے بہت قدیم اور نہایت مقدس آثار موجود ہیں۔ مہاراجہ اشوک کے زمانے کے بدھ مت کے آثار ملک کے شمال مغربی حصے اور سکھ مذہب کے مقدس مقامات زیادہ تر پنجاب میں پائے جاتے ہیں‘ مگر ہندو مذہب سے وابستہ مقامات پورے پاکستان میں پائے جاتے ہیں، جن میں وادیٔ نیلم میں واقع شاردا پیٹھ بھی شامل ہے۔ اسی طرح کے قدیم اور پرانے آثار میں سیالکوٹ کا کرشنا مندر اور کلر کہار کے علاقے میں واقع کٹاس راج کا بھی مندر شامل ہے۔ کٹاس راج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاردا سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہا بھارت کے اہم کردار ''پانڈوز‘‘ نے اپنے بن باس کا کچھ عرصہ یہاں پر گزارا تھا۔ شاردا اور قدیم ٹیکسلا کی طرح کٹاس راج بھی اپنے زمانے میں علم و تحقیق کا ایک بہت بڑا مرکز تھا‘ جہاں ہندوستان سے باہر کے دیشوں سے بھی علم و حکمت کے متلاشی طالب علم آتے تھے۔ اس مقام پر واقع یونیورسٹی میں اہم علوم مثلاً ریاضی، فلکیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ قدیم ہندوستان کے مشہور سٹریٹیجک تھنکر چانکیہ یہیں پہ تحقیق و تدریس کے کام میں مصروف رہے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ البیرونی نے سنسکرت سیکھنے کیلئے کٹاس راج کی درسگاہ میں قیام کیا تھا اور اسی دوران انہوں نے اپنی مشہور کتاب مکمل کی تھی۔ کٹاس راج صرف ہندوئوں کیلئے ہی نہیں کچھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لیے بھی مقدس گردانا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق سکھ مذہب کے بانی بابا نانک نے بھی یہاں عبادت میں کچھ عرصہ گزارا تھا۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی ہندوئوں کے قدیم مذہبی مقامات ہیں، جن کی یاترا کے لیے بھارت سے ہر سال درجنوں ہندو پاکستان آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان سے بھی زائرین کی ایک بڑی تعداد ہر سال اجمیر شریف، دہلی اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے بھارت جاتی ہے۔ دونوں ممالک میں اس مقصد کیلئے ایک باقاعدہ معاہدہ موجود ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا جو سلسلہ 2004ء میں شروع ہوا تھا، اس کے تحت 2012ء میں دونوں ملکوں کے زائرین کی سہولت کیلئے ویزہ اور دیگر سفری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے الگ پروٹوکول پر دستخط بھی کئے گئے تھے۔ مگر بد قسمتی سے موجودہ کشیدگی کے باعث زائرین کے آنے جانے کا یہ سلسلہ محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے صرف زائرین کی دل آزاری نہیں ہوئی بلکہ دونوں ملکوں کے وسیع تر قومی مفادات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مثلاً آزاد کشمیر کو ہی لے لیجئے۔ 2003ء میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے سے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کو امن اور سکون کے جو چند سال میسر آئے تھے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں نے نہ صرف اپنے معمولاتِ زندگی کو بحال کیا، بلکہ ایک اطلاع کے مطابق آزاد کشمیر خصوصاً وادیٔ نیلم میں سیاحت کے فروغ کیلئے ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی شروع ہو گئی تھی۔ اگر 2011 اور 2012 میں لائن آف کنٹرول کے آر پار سے ایک دوسرے کے مورچوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ نہ شروع ہوتا تو آج آزاد کشمیر میں سیاحت کی وجہ سے معیشت مضبوط ہوتی۔ لوگ خوشحال ہوتے اور بیروزگاری کا بڑی حد تک خاتمہ ہو جاتا۔ اس لیے ڈاکٹر رمیش کمار کی اپیل اگرچہ ایک مخصوص مذہبی مقام سے تعلق رکھتی ہے مگر وسیع تر تناظر میں اگر اسے دیکھا جائے، تو یہ دراصل حکومت کے سامنے مذہبی سیاحت کے فروغ کے راستے میں موجود تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایک تجویز ہے اور حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لے گی‘ کیونکہ سیاحت کا فروغ اس کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ مگر اس کے لیے فوری طور پر دو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان میں غیر مسلموں خصوصاً ہندوئوں کے مقامات مقدسہ کی دیکھ بھال کا مؤثر انتظام کرنا چاہئے۔ اس وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں واقع ہندوئوں کے مقدس مقامات اور مندر نہایت خراب حالت میں ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ حکومت اگر مذہبی سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو سکھ مذہب، بدھ مت اور ہندو ازم کی تاریخی عمارات کو ان کی اصلی صورت میں بحال کرکے ان کے انتظام و انصرام کا ایک مؤثر نظام قائم کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لیے متروکہ وقف املاک بورڈ کافی نہیں ہے۔ سیاحت ایک نفع بخش صنعت ہے اور اس میں نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی حصہ لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان اگر چاہے تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور اقوام متحدہ بھی مالی اور تکنیکی امداد فراہم کر سکتی ہے‘ کیونکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر امن، مفاہمت اور تعاون کو فروغ ملتا ہے۔ پاکستان کیلئے مذہبی سیاحت کا فروغ اس لیے بھی ضروری اور سود مند ہے کیونکہ اس سے جنوبی ایشیاء کے خطے میں محاذ آرائی، منافرت اور کشیدگی میں کمی ہو گی‘ کیونکہ یہ منفی رجحانات صرف اس وقت فروغ پاتے ہیں‘ جب عام لوگوں کے درمیان رابطے نہ ہونے کی وجہ سے ملک ایک دوسرے سے دور ہوں۔حکومتی سطح پر دونوں ملکوں کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے ویزے کی پابندیوں کو بلا امتیاز نرم کیا جائے۔ سکیورٹی کے نام پر دوسرے ملک سے آئے ہوئے یاتریوں/ زائرین کو ہراساں نہ کیا جائے۔ زائرین/ یاتریوں کو ایک ویزے پر ایک سے زیادہ مقامات کی یاترا/ زیارت کی اجازت دی جائے۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے ہاں مذہبی مقامات کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے ایک باضابطہ معاہدہ موجود ہے، تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دونوں ملکوں کو چاہئے اگست 1953ء کے اس معاہدے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں مزید ایسی دفعات شامل کی جائیں جن پر عمل درآمد سے پاکستان اور بھارت میں مذہبی عمارتوں اور مقدس مقامات کی بہتر دیکھ بھال اور انتظام و انصرام کو یقینی بنایا جا سکے۔ سب سے زیادہ ضروری اقدام پاکستان میں آنے والے سیاحوں کی سلامتی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان اس مقصد کیلئے ایک جامع پالیسی اور مؤثر اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو پاکستان میں سیاحت کی صنعت زبردست ترقی پا سکتی ہے۔ اس طرح ڈاکٹر رمیش کمار کی تجویز پر بھی عمل درآمد ہو جائے گا۔