کیا پاک بھارت سرد مہری گرمجوشی میں تبدیل ہو رہی ہے؟ کیا دونوں ملکوں میں سخت کشیدگی کے باوجود نارمل تعلقات کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟ کیا اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو رہا ہے؟ بظاہر تو ان سوالات کا ہاں میں جواب دینا مشکل نظر آتا ہے‘ کیونکہ ان ہمسایہ ممالک نے اپنے اپنے مؤقف میں ابھی تک کوئی نمایاں لچک نہیں دکھائی‘ مگر گزشتہ چند دنوں میں ایسے حوصلہ افزا واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی روشنی میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لئے کم از کم ابتدائی رابطوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جن حالیہ واقعات کی بنیاد پر پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور بالآخر باہمی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی طرف پیش قدمی کی توقع ظاہر کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک حکومتِ پاکستان کی طرف سے اپنی فضائی حدود میں غیر ملکی ایئر لائنز کے طیاروں کے داخلے پر بندش کا خاتمہ ہے اور دوسرا 14 جولائی کو واہگہ کی سرحد پر کرتارپور کاریڈور کی تعمیر کو اس برس نومبر سے پہلے مکمل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے نمائندوں کے درمیان کامیاب اجلاس ہوا ہے۔
پاکستان نے اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی طیاروں کی پرواز کے لیے 27 فروری کے واقعات کی روشنی میں بند کیا تھا اور اس کا مقصد بھارت کی جانب سے بالاکوٹ طرز کے کسی بھی فضائی حملے کا جواب دینے کے لیے چوکنا رہنا تھا۔ بھارت نے بھی کچھ مدت کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند کئے رکھا مگر اس نے جلد ہی یہ پابندی اٹھا دی تھی جبکہ پاکستان نے شرط عائد کی تھی کہ بھارت پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنے ہوائی اڈوں سے اپنے لڑاکا طیاروں کو ہٹا لے تو پاکستان اپنی فضائی حدود بھارت اور دیگر ملکوں کے مسافر طیاروں کے لیے کھول دے گا۔ تاہم پاکستان کا حالیہ فیصلہ غیر مشروط ہے اور اس کا بھارت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں خیر مقدم ہونا چاہئے ‘کیونکہ پاکستان نے خیر سگالی کے اس اقدام کے ذریعے ایک امن پسند ملک ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے اس اقدام کو خصوصی طور پر اس لئے بھی سراہنا چاہئے کیوں کہ اس بندش سے بھارتی ائیر لائنز کو کروڑوں روپے روزانہ نقصان کے علاوہ وسطی اور مغربی ایشیا کے علاوہ یورپی ممالک کے ساتھ فضائی سفر کے لیے ایک لمبا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اس کی وجہ سے مغرب کی طرف سے غیر ملکی ائیر لائنز کو بھی بھارت پہنچنے میں تاخیر اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہ پابندی اگرچہ پانچ ماہ برقرار رہی مگر اس نے اس عرصے میں بھارت کو وسطی اور مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے رابطے کے لیے پاکستان کے ساتھ نارمل تعلقات کی اہمیت سے ضرور آگاہ کر دیا ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے دوسرا خوش کن واقعہ واہگہ کے سرحدی مقام پر کرتارپور کاریڈور کی تعمیر میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے وفود کی سطح پر ایک کامیاب میٹنگ تھی۔ پاکستان کی طرف سے اس میٹنگ میں ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیا ڈاکٹر فیصل کی سربراہی میں وفد نے شرکت کی۔ میٹنگ کے بعد ڈاکٹر فیصل نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ میٹنگ انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور کرتارپور کاریڈور کی تعمیر اور دیگر امور پر 80فیصد اتفاق ہو گیا ہے۔ باقی ماندہ مسائل کو زیر غور لانے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان عنقریب ایک اور میٹنگ ہوگی اور امید ہے کہ اس سال نومبر میں گرونانک کی 550 ویں یوم پیدائش کی تقریب سے قبل نہ صرف کاریڈور کی تعمیر مکمل ہو جائے گی بلکہ بھارت سے سکھ یاتریوں کی آمد اور ان کی رہائش کے بارے میں بھی تمام امور طے کر لئے جائیں گے۔
نارووال (جڑ) کے قریب دریائے راوی کے آر پار کاریڈور کی تعمیر کی بروقت تکمیل میں پاکستان اور بھارت دونوں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سکھ برادری کے مذہبی احساسات سے ہے۔ پاکستان میں سکھ مذہب کی درجنوں یادگاریں ہیں‘ جن کی یاترا کے لیے سال کے مختلف مواقع پر ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی حکومت کے لیے بھی سکھوں کے مذہبی جذبات کا احترام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی پنجاب سے ملحقہ بھارت کی ریاست مشرقی پنجاب میں سکھ اکثریت میں ہیں جنہیں راضی رکھنا بھارت کے قومی مفاد میں ہے۔ کرتارپور کاریڈور کی تعمیر اور اس کا استعمال ایک غیر معمولی اور پاک بھارت تعلقات کے لیے دوررس مضمرات کا حامل واقعہ ہے‘ کیونکہ اس کے ذریعے بھارت کی طرف سے سکھ یاتریوں کی ایک بڑی تعداد کو سال بھر روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی علاقے میں واقع گردوارہ کی یاترا کے لیے آنے کا موقع ملے گا۔ ابتدا میں پانچ ہزار سکھ یاتریوں کی روزانہ آمد پر اتفاق ہوا ہے مگر موجودہ سہولیات میں توسیع سے مزید سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس سے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا بلکہ دونوں ملکوں میں تجارتی‘ ثقافتی اور سیاسی تعلقات میں وسعت کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔
ان دو بڑے واقعات کے علاوہ یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسلام آباد میں پاک بھارت ٹریک ٹو کے غیر سرکاری فریم ورک کے تحت دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے چند حاضر سروس اور ریٹائرڈ سفارتکاروں کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی کے موجودہ ماحول کو نرم کر کے عوامی سطح پر باہمی روابط کے سلسلے کو پھر سے شروع کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کے نوجوان طبقے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں ملاقات کے بعد پاک بھارت ٹریک ٹو کے تحت مذاکرات نئی دہلی میں منعقد کئے جائیں گے۔ امید ہے کہ ان ملاقاتوں کے بعد پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہاں کھلاڑیوں‘ فنکاروں یا طلبا پر مشتمل وفود بھیجنے پر راضی ہو جائیں گے۔ اس طرح باہمی اعتماد سازی کے عمل کا آغاز کرنے میں مدد ملے گی جو آگے چل کر سرکاری سطح پر رابطہ قائم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ماضی میں ٹریک ٹو کے تحت سفارتکاری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلے کم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ 2008ء میں بھارت جموں و کشمیر سے متعلقہ اعتماد سازی کے اقدامات مثلاً 2005 ء میں مظفرآباد‘ سری نگر بس سروس اور 2008ء میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا آغاز اس ڈپلومیسی کی کامیابی کی زندہ مثالیں ہیں۔
جنوبی ایشیا کی موجودہ صورتحال خصوصاً پاکستان اوربھارت کے ہاتھ میں ایٹمی ہتھیار آنے کے بعد پاک بھارت کشیدگی محض دو ملکوں کے درمیان مسئلے کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اس کی ایک جہت بین الاقوامی بھی ہے‘ کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان ملکوں میں تصادم ایک ایٹمی جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ اسی سال فروری میں پلوامہ کے واقعے کے بعد تو یہ خدشہ یقین کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ اس لئے بین الاقوامی برادری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی پر اتنی ہی تشویش ہے جتنی پاکستان اور بھارت یا خطے کے عوام کو ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے ماضی کے تعلقات کے ریکارڈ کے پیش نظر یہ کشیدگی کسی وقت بھی ایک بڑے تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں مثلاً امریکہ‘ چین‘ روس اور یورپی یونین کی ہمہ وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے باہمی کوششوں پر راضی ہو جائیں ۔اس سلسلے میں وہ ہر ممکن کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے اس ضمن میں امریکی پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں اگر امریکہ کو کسی کردار ادا کرنے کا موقع ملا تو امریکی حکومت بڑی خوشی سے یہ کردار ادا کرے گی۔ امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران اس مسئلے پر بھی بات ہوگی اور اگر امریکہ اس پر کوئی مدد فراہم کر سکتا ہے تو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہوگی۔