وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کشمیر پر ریمارکس سے جو دھول اٹھی ہے، وہ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ خاص طور پر بھارت میں تو اس بیان پر کہرام مچا ہوا ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی تو اس قدر سبکی اور ذلت محسوس کر رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس مسئلہ پر ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں پڑ رہی‘ حالانکہ صدر ٹرمپ نے جو کچھ کہا اُس کا براہ راست وزیر اعظم مودی سے تعلق ہے‘ بھارت کی حکمران جماعت سے نہیں۔ جہاں تک بھارتی اپوزیشن خصوصاً کانگرس کا تعلق ہے تو اپریل مئی کے پارلیمانی انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد اُسے یہ پہلا بڑا موقعہ ملا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر بھارتی عوام کے سامنے ننگا کر سکے۔ اسی لیے لوک سبھا میں نئے وزیر خارجہ کے اس بیان کہ وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ سے کشمیر پر ثالثی کی کبھی درخواست نہیں کی اور یہ کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو بدستور پاکستان کے ساتھ ایک دو طرفہ مسئلہ سمجھتا ہے، نے نہ تو ارکانِ پارلیمنٹ کو ٹھنڈا کیا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے باہر بپا اس شور میں کمی آئی ہے۔ بھارتی میڈیا کا تو بُرا حال ہے۔ وہ ایک طرف وزیر اعظم مودی پر غصہ جھاڑ رہا ہے اور دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ وزیر اعظم کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے بھارتی میڈیا، انہیں خارجہ پالیسی کے شعبے میں نابلد اور پاکستان کے مبینہ عزائم سے بے خبر قرار دے رہا ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا نے تنقید اور تضحیک کے تیز ترین جملے صدر ٹرمپ کیلئے سنبھال رکھے ہیں، جنہیں بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینل گاہے بگاہے ان کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کے انگریزی زبان کے اخبار '' دی ہندو‘‘ نے اپنے ایک حالیہ اداریئے میں تو صدر ٹرمپ پر سفارتی آداب اور تسلیم شدہ بین الاقوامی قانون کے ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی کا الزام بھی لگا دیا۔ اخبار کے مطابق عالمی رہنمائوں کے درمیان باضابطہ اور رسمی ملاقاتوں سے ہٹ کر غیر رسمی اور آزادانہ ماحول میں ہونے والی گفتگو اور جملوں کے تبادلے میں کسی تیسرے فریق کا ذکر نہیں کیا جاتا مگر امریکی صدر ٹرمپ نے ایسا کر کے سفارت کاری اور دو خود مختار ملکوں کے تعلقات کے بارے میں مروجہ اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اکثر اخبارات انہیں جھوٹا قرار دے رہے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا یا بھارتی حکومت کے کسی بیان میں اس بات کی تردید نہیں کی گئی کہ امریکہ اور بھارت کے ان دونوں رہنمائوں کے درمیان کشمیر پر یا اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
بھارتی حکومت اور میڈیا کو اگر کوئی رنج ہے، تو وہ یہی کہ ان کی لاکھ کوشش کے باوجود کشمیر کا مسئلہ، جسے وہ اپنے تئیں حل شدہ سمجھتے ہیں، بین الاقوامی سیاسی افق پر نمایاں ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیان سے پیدا ہونے والی بحث کا اگر پاکستانی نقطہ نظر سے کوئی مثبت اور مفید پہلو ہے تو وہ یہی ہے کہ بھارت کی پیہم اور بھرپور کوششوں کے باوجود کشمیر کا مسئلہ نہ صرف ابھی تک زندہ ہے، بلکہ بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ورنہ جہاں تک کشمیر پر بھارت اور امریکہ کے دیرینہ اور روایتی مؤقف اور پالیسی کا تعلق ہے، اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدر ٹرمپ کے ریمارکس سے اٹھنے والی دھول جب بیٹھ جائے گی اور سفارتی مطلع صاف ہو جائے گا تو یہ حقیقت واضح طور پر نظر آئے گی۔ امریکہ نے شروع سے ہی کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسے حل کرنے کیلئے دونوں ملکوں کو آپس میں مل کر پُر امن مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ مثلاً 1950ء میں جب کوریا کی جنگ چھڑ گئی اور امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی میں دیگر ملکوں کو بھی شامل کرنا چاہا، تاکہ امریکی اقدام کو ایک بین الاقوامی کارروائی کا لبادہ پہنایا جا سکے، تو پاکستان سے بھی کوریا میں اپنے فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اُس وقت پاکستان میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ریکارڈ کے مطابق امریکہ نے اس کے بدلے پیشکش کی تھی کہ وہ پاکستان کی ایک پوری ڈویژن فوج کو جدید ترین اسلحہ سے مُفت مسلح کرنے پر تیار ہے۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ اس کی بجائے اگر امریکہ افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن اور بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دینے پر تیار ہے، تو پاکستان اپنے فوجی دستے کوریا بھیج دے گا۔ مگر امریکہ نے پاکستان کا یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ امریکہ ان دونوں مسائل کو فریقین کے درمیان دو طرفہ نوعیّت کے تنازعات سمجھتا ہے۔ امریکہ کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کی امریکہ کی طرف سے کشمیر کے تنازع میں مداخلت سے انکار کی وجہ سے پاکستان کوریا کی جنگ میں ایک فریق بننے سے بچ گیا۔ مگر امریکہ نے کشمیر اور پاک بھارت دیگر تنازعات کے بارے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ حالانکہ امریکہ کشمیر پر بھارتی مؤقف سے متفق نہیں اور بھارتی مؤقف کے برعکس اسے ایک ایسا مسئلہ قرار دیتا ہے جو ابھی حتمی طور پر حل ہونا باقی ہے‘ اور اس کے لیے پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ پُر امن مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
کشمیر پر بھارت اور امریکہ کے مؤقف میں اگر کوئی ہم آہنگی ہے، تو صرف اس حد تک ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے بارہا اس مؤقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ کشمیر پر امریکہ کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدر ٹرمپ کے بیان سے بھی امریکی پالیسی میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا؛ البتہ جیسے جیسے کشمیر کا مسئلہ نمایاں ہوتا چلا گیا ہے اور جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کیلئے اس کے تسلی بخش حل (خصوصاً 1998ء میں پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد) کی ضرورت کو تسلیم کیا جا رہا ہے، دیگر اہم ممالک کی طرح امریکہ کی طرف سے بھی اس کے حل پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اور اس کے لیے بھی دو طرفہ مذاکرات کا ہی راستہ تجویز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر پاکستان اور بھارت دونوں راضی ہوں تو وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔ چونکہ بھارت نے ہر دفعہ یہ پیشکش مسترد کر دی‘ اس لیے کشمیر پر امریکہ یا کسی اور طرف سے ثالثی کی نوبت نہیں آئی؛ البتہ امریکہ نے پس پردہ رہ کر کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل اور پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کیلئے، دوسری طاقتوں مثلاً روس، چین اور یورپ کے ساتھ مل کر امن مذاکرات کا عمل شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ شروع کرنے میں جن ممالک نے پس پردہ کوششیں کی تھیں اُن میں امریکہ بھی شامل تھا۔ اب بھی جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ معطل ہے، دیگر طاقتوں کی طرح امریکہ بھی پاکستان اور بھارت کو یہ عمل دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے اُس نے ہر قسم کی امداد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ صدر ٹرمپ کے ریمارکس سے کشمیر پر امریکہ کی پالیسی میں کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے مگر ان ریمارکس کو غیر اہم یا غیر متعلقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیا میں امن کی خاطر مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی اشد ضرورت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی پائی جاتی ہے‘ جس کے جاری رہنے سے نہ صرف دونوں ملکوں میں کسی بڑے تصادم کے اندیشے کے بڑھنے کا خدشہ ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ٹرمپ نے حال ہی میں جس حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے، اُس پر کامیابی سے عمل کرنے کے راستے میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں سمجھوتے کے بعد خطے میں امریکہ کی دوسری ترجیح، پاکستان اور بھارت کے مابین امن ہے، جو مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔