حزبِ مخالف میں شامل سیاسی جماعتوں کی ایک آل پارٹیز کانفرنس 19 اگست کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جن سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی شامل ہیں۔ اپوزیشن میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے‘ تاہم ان دونوں جماعتوں کے سینئر رہنما کانفرنس میں موجود تھے اور جو بھی فیصلے کئے گئے ‘ انہیں مولانا فضل الرحمن کے مطابق‘ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ان فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ حکومت کے خلاف اسلام آباد تک مارچ اور وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنے کا تھا۔ اس مارچ کی تاریخ کا تعین کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی ''رہبر کمیٹی‘‘ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد 29 اگست تک اپنی رپورٹس پیش کرے۔ مولانا فضل الرحمن‘ جنہوں نے اے پی سی کی صدارت کی ‘ کے مطابق حکومت کے خلاف مارچ کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔بقول ان کے اس کا مقصد مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ناکامی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف عوام کو ابھارنا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اے پی سی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن اس مارچ میں شامل ہوں گے‘ لیکن حکومت حزبِ مخالف کے اس فیصلے پر ذرہ بھر فکر مند نظر نہیں آتی‘ کیونکہ سینیٹ چیئر مین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے اپوزیشن کی صفوں میں انتشار اور باہمی عدم اعتماد کو اتنا واضح کر دیا ہے کہ اپوزیشن ایک متحد‘با ہم مربوط اور مضبوط شو پیش کرنے کے قابل نظر نہیں آتی۔ حکومت کو یقین ہے کہ اپوزیشن کی اپیل پر لوگ باہر سڑکوں پر نہیں آئیں گے‘ کیونکہ ان میں خود اتحاد کی کمی ہے۔ خاص طور پر اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جو دراڑیں پڑ چکی ہیں‘ وہ ابھی تک پُر نہیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے‘ اس کے پیش نظر خصوصاً پنجاب میں ‘ لوگوں کی توجہ اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کی طرف کم ہی ہو گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور جیسا کہ ایک اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک کی فوجیں جنگ کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے آر پار سے ایک دوسرے کے مورچوں اور شہری آبادی والے علاقوں پر فائرنگ کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے۔ اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ‘اب چھوٹے ہتھیاروں کی جگہ بھاری ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کو تین ہفتے ہونے کو ہیں اور خدشہ ہے کہ کرفیو کی پابندیاں نرم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ کیونکہ کشمیری حریت کانفرنس کے نظر بند رہنمائوں نے جمعہ کی نماز کے بعد ان احتجاجی مظاہروں کی کال دے رکھی ہے‘ اسی طرح مخدوش سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ملک کی تاجر تنظیموں نے بھی حکومت کی ٹیکس پالیسی کے خلاف ہڑتال کے فیصلے پر عمل درآمد مؤخر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے احتساب عمل کے تحت اپوزیشن کے سر کردہ رہنمائوں کو نیب کی جیلوں میں بند کر دیا ہے۔ نیب کی جیلوں میں بند سیاسی رہنمائوں میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری بھی شامل ہیں‘ لیکن حکومت کی کارروائیوں کی زد‘ سب سے زیادہ پاکستان مسلم لیگ پر پڑی ہے۔ اس کے تمام سرکردہ رہنما‘ جن میں نواز شریف‘ ان کی بیٹی مریم‘ شاہد خاقان عباسی‘ سعد رفیق‘ حمزہ شہباز وغیرہ جیل میں ہیں۔ صرف شہباز شریف باہر ہیں اور انہیں بھی نیب نے 23 اگست کو بلا رکھا ہے۔ جس طرح مختلف کیسز کی تفصیلات اخبارات میں چھپ رہی ہیں‘ ان کے مطابق ‘شریف خاندان کے مزید افراد کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر وہ اپوزیشن کی کسی بھی احتجاجی تحریک یا مارچ کو غیر مؤثر بنا سکتی ہے‘ خاص طور پر مریم نواز کی گرفتاری‘ اپوزیشن کی حکومت مخالف سیاسی تحریک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے‘ کیونکہ مریم نواز‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کر رہی تھیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو جاتی عمرا میں مدعو بھی کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے لیے ہی نہیں‘ بلکہ مقتدرہ کے لیے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں قربت اور سیاسی اتحاد ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں اور وہ انہیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ سینیٹ کے چیئر مین کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کا جو حشر ہوا وہ اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ مقتدرہ قوتیں ان دونوں پارٹیوں میں اتفاق اور رخنہ ڈالنے کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ مریم نواز کو صرف اس لئے قید نہیں کیا گیا‘ بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے گرفتاری سے قبل پنجاب کے مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف بڑے کامیاب جلسے کئے تھے اور ان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی خدشے کے پیش نظر کہ ان جلسوں کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مریم نواز کہیں حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایک ملک گیر تحریک چلانے میں کامیاب نہ ہو جائیں‘ چودھری ٹیکسٹائل ملز کے کیس میں منی لانڈرنگ کے الزام میں مریم نواز کو قید کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈر شپ کو جیل میں ڈال کر شاید حکمران سمجھتے ہیں کہ ہر احتجاجی تحریک کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے اپوزیشن کو اب تک حکومت کے خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی؛ حتیٰ کہ سینیٹ میں اکثریت کے باوجود‘ وہ موجودہ چیئر مین کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عہدے سے نہیں ہٹا سکی‘ اس لئے وہ اے پی سی کی کال پر اسلام آباد کے گھیرائو کی دھمکی سے بھی مرعوب نہیں‘ تاہم کشمیر کی صورتحال کے پیش نظر عوام میں یہ عام تاثر ابھر رہا ہے کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی۔ اندرونی طور پر ملک کو در پیش دو بڑے مسائل‘ یعنی معیشت کی زبوں حالی اور دہشت گردی کے پھر سے بڑھتے ہوئے واقعات نے لاء اینڈ آرڈر اور سکیورٹی کے شعبے میں حکومت کی کمزوری کو عیاں کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ احتساب کا عمل جس پر بعض حلقے پہلے ہی سوال اٹھا رہے تھے‘ عوام کی نظر میں امتیازی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ احتساب کے ریڈار پر زیادہ تر حزب مخالف کے سیاستدان اور وہ بھی صرف دو سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قانون کے تحت کسی بھی زیر تفتیش شخص کو تین ماہ تک قید میں رکھنے کا اختیار ہے‘ مگر بعض افراد کے خلاف سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود عدالتوں میں چالان پیش نہیں کیا جا سکا۔ جج ارشد ملک صاحب کے ویڈیو سکینڈل پر جناب چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد حتساب عمل پر اور بھی سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ حکومت نہ تو مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی اسے بجٹ خسارے کو پورا کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی تلوار حکومت کے سر پر ہمہ وقت لٹکتی نظر آ رہی ہے۔ اقتدار کے ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حکومت کے کھاتے میں کسی بڑی کامیابی یا کارنامے کی عدم موجودگی اور آگے کسی طویل المیعاد اور دور رس نتائج کے حامل منصوبوں کی کمی‘ حکومت کی کمزوری ظاہر کر رہی ہے اور اس سے اپوزیشن کی جانب سے فائدہ اٹھانے کا امکان صاف نظر آتا ہے۔