"DRA" (space) message & send to 7575

انٹرا افغان ڈائیلاگ پر زور

اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کے بعد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا معاملہ ایک بار پھر سوالیہ نشان بنتا نظر آتا ہے‘ لیکن بعض امریکی حکام کی جانب سے ہی بات چیت کا عمل مکمل طور پر ختم نہ ہونے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایک اور سطح پر افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ 7 ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے سہ فریقی ڈائیلاگ کی تیسری سالانہ کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ افغانستان کے مسئلے سے جن ممالک کا دُور یا نزدیک کا تعلق ہے، ان کی بھاری اکثریت انٹراافغان ڈائیلاگ کو افغانستان میں امن سمجھوتے کا لازمی حصّہ بنانے کے حق میں ہے۔ انٹراافغان ڈائیلاگ سے مراد افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہیں۔ مگر طالبان نے اس تجویز کو شروع سے ہی سختی سے مسترد کر دیا۔ اس کی بجائے وہ صرف غیرملکی افواج یعنی امریکہ سے معاہدہ کرکے افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کا انخلا چاہتے ہیں؛ البتہ انہوں نے افغانستان میں حکومت کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات چیت ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شروع ہونے کی توقع ہے۔ طالبان نے یہ رعایت دی ہے کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے شرکت کر سکتے ہیں مگر وہ حکومت کی نمائندگی نہیں کر سکتے، بلکہ وہ ذاتی حیثیت میں شرکت کریں گے۔ لیکن افغان حکومت اور ملک کے دیگر سیاسی حصوں میں شدید خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر امریکی افواج کا انخلا شروع ہو جاتا ہے، تو بھی افغانستان میں جنگ بند نہیں ہوگی کیونکہ طالبان نے واضح کردیا ہے کہ وہ غیرملکی افواج کے انخلا کے شروع ہونے پر صرف انہی علاقوں میں جنگ بند کریں گے جہاں سے امریکی افواج رختِ سفر باندھ رہی ہوں گی اور افغانستان کے دیگر حصوں میں موجود افغان افواج اور ان کے زیر تسلط علاقوں پر حملے جاری رہیں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق طالبان نے یہ بھی منوا لیا تھا کہ وہ نہ صرف افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے، بلکہ سرکاری افواج پر طالبان حملوں کے دوران، امریکی فوج یا امریکی فضائیہ سرکاری افواج کی مددکو نہیں آئیں گی۔ افغان حکومت کے حلقے معاہدے کی اس شق پر بہت مضطرب تھے کیونکہ سرکاری افواج امریکی فوج اور فضائیہ کی مدد کے بغیر طالبان کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یہ حقیقت حال ہی میں سامنے آ گئی تھی جب کندوز اور پُل خمری پر طالبان کے حملوں کو افغان سرکاری فوجوں نے صرف امریکی مدد سے پسپا کیا تھا۔ ان دو بڑے شہروں پر طالبان کی یلغار کے علاوہ ملک کے دیگر مقامات خصوصاً کابل میں ایک خود کش حملے میں ہونے والی جانی نقصانات نے بھی امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کے مستقبل کو مخدوش بنا دیا کیونکہ کابل کے خود کش حملے میں ''نیٹو‘‘ کے دو فوجی جوان جن میں سے ایک کا تعلق امریکہ سے تھا، ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی فوجی کی ہلاکت پر صدر ٹرمپ نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے اظہار ناراضگی کے طور پر امریکہ میں طالبان کے سینئر رہنمائوں سے ہونے والی ایک ملاقات کو منسوخ کر دیا۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل میکنزی نے بھی اس پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے مذاکرات کے دوران طالبان کے حملوں کے جاری رہنے کی مذمت کی۔ طالبان کی طرف سے شہری علاقوں میں حملے تیز کرنے کے بعد، دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں شکوک و شبہات اور خدشات کا اب کئی مزید حلقوں کی طرف سے بھی اظہار کیا جا رہا ہے اور برملا کہا جا رہا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ بلکہ 1990ء کی دہائی میں ہونے والی خوفناک خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بعض حلقے طالبان کی طرف سے بزورِ طاقت حکومت اور ملک پر قبضہ کرنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ طالبان کے ایک سینئر کمانڈر کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد وہ حکومت پر بزور طاقت قبضہ کرکے وہ اسلامی امارات افغانستان بحال کریں گے جسے اکتوبر 2001ء میں امریکیوں نے حملہ کرکے پسپا ہونے پر مجبور کیا تھا۔ اس قسم کی صورتحال سے بچنے کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگی بندی اور انخلا کے ساتھ ساتھ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ملک کے آئندہ سیاسی ڈھانچے کے بارے میں بات چیت پر زور دیا گیا تھا۔ 
اسلام آباد میں پاک چین، افغانستان سہ فریقی ڈائیلاگ کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت پرزور اس ضمن میں پہلا بیان نہیں ہے۔ دوحہ مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے آغاز پرنہ صرف افغان حکومت اور امریکہ بلکہ قطر، سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی یہی مطالبہ دہرایا گیا مگر طالبان نے اسے مسترد کرتے ہوئے مذاکرات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تھی۔ بعد میں وہ مذاکرات پر راضی ہوگئے مگرافغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ کسی قسم کے براہ راست رابطے سے انکار کرتے رہے۔ مگر امریکہ کی طرف سے ان پر برابراصرار کیا جاتا رہا بلکہ زلمے خلیل زاد نے ایک سے زیادہ مرتبہ زور دے کرکہاکہ طالبان کے ساتھ معاہدے میں جنگ بندی اور انٹراافغان ڈائیلاگ لازمی شامل ہونے چاہئیں، ورنہ اس پر دستخط نہیں ہوں گے۔ لیکن طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امریکیوں سے اپنی شرائط منوالی ہیں کہ وہ نہ صرف افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے، بلکہ افغان سکیورٹی فورسزاور ان کے زیر تسلط علاقوں پرامریکیوں کے جانے کے بعد بھی حملے جاری رکھیں گے۔ اگر امریکیوں نے اس کی خلاف ورزی کی تو وہ (یعنی طالبان) امریکیوں کے ساتھ اپنے معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ مگر طالبان کے اس سخت مؤقف کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان معاہدہ امن کی طرف پیش قدمی کا خیرمقدم کرتے ہوئے طالبان کی طرف سے حالیہ حملوں اورتشدد کے واقعات کی مذمت کی اور مطالبہ کیاکہ افغانستان میں تشددکی روک تھام اور پائیدار امن کے قیام کیلئے ایسی انٹراافغان بات چیت شروع کی جائے جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ملک کے آئندہ سیاسی ڈھانچے کیلئے مذاکرات ہوں۔ اس سے پہلے روس کی طرف سے بھی اس قسم کے مؤقف کااظہار کیا جاچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے انعقاد پر ایک بین الاقوامی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ لیکن کیا طالبان اس پرآمادہ ہوجائیں گے؟ مگر اس کے آثار نظر نہیں آتے؛ تاہم طالبان کیلئے اپنے اس سخت مؤقف کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا محال ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے اس مؤقف کو ملک کے اندریا ملک کے باہر کسی بھی حلقے میں پذیرائی حاصل نہیں بلکہ افغانستان میں پائیدار امن کے خواہشمند حلقے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان نہ صرف مذاکرات بلکہ ایک ٹھوس معاہدے پر اصرار کر رہے ہیں تاکہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد 1990ء جیسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ 1990ء سے 2019ء کے درمیانی عرصہ میں نہ صرف افغانستان بلکہ اس کے اردگرد کے خطوں میں بھی بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی روشنی میں افغانستان کے اندر جنگ یا امن کا مسئلہ محض افغانستان کا اندرونی مسئلہ نہیں رہا۔ اس عرصہ میں افغانستان کے اندر ایسی سیاسی، آئینی، معاشی، سماجی اورثقافتی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ 1996ء سے 2001ء تک ان کی حکومت کو دنیا بھر میں صرف تین ملکوں نے تسلیم کیا تھا جبکہ افغانستان کی موجودہ حکومت کو اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک ایک جائز، آئینی اور نمائندہ حکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے دنیا سے کٹ جانے کے خطرے کے پیش نظر طالبان کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایسا لچک دار رویہ اختیار کرنا پڑے گا جس کے ذریعے وہ ایک قابل عمل اور سب کیلئے قابل قبول حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ ان کی بات چیت کا عمل بھی بحال ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں