وزیراعظم عمران خان 13 ستمبر کو کراچی کا دورہ کرنے والے تھے‘ مگر اچانک انہوں نے یہ دورہ منسوخ کر دیا۔ وزیراعظم آفس سے دورے کی تنسیخ کی وجہ نہیں بتائی گئی‘ تاہم سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کراچی میں اسی ایشو پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی میں آئین کی دفعہ 149 (4)کے نفاذ کی اطلاع پر سندھ میں جو سخت ردعمل سامنے آیا ہے‘ غالباًاسی کی وجہ سے وزیراعظم نے کراچی کا دورہ منسوخ کیا۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق وزیراعظم اپنے دورہ کراچی کے موقع پر شہر کے انتظام و انصرام کے بارے میں ایک اہم اعلان کرنے والے تھے ‘بظاہر یہ اعلان آئین کی دفعہ 149 (4) کے نفاذ کا ہی ہوسکتا تھا۔ وفاقی وزیر کے اس بیان میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت نے کراچی میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے ایک بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سے چھ چھ اراکین ہوں گے۔ بعد میں اس کمیٹی میں سندھ سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کی باقاعدہ تشکیل ‘ کارروائی اور سفارشات تیار کرنے سے پہلے ہی وفاقی وزیر قانون نے اعلان کر دیا کہ کمیٹی وزیراعظم کے سامنے کراچی میں آئین کی دفعہ 149 (4) کے نفاذ کے لئے سفارش پیش کرے گی ۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کی ذاتی رائے بھی اس کے حق میں ہے کہ کراچی کے انتظامی معاملات کو وفاق اپنے ہاتھ میں لے لے‘ کیونکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ان معاملات کو تسلی بخش طریقے سے نمٹانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں شمولیت سے پہلے بھی وہ اس قسم کے بیان دے چکے ہیں کہ کراچی کو وفاق کی تحویل میں دے دینا چاہئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کراچی کووفاق کی تحویل میں دینے کے منصوبے کا کراچی میں حالیہ بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے کوئی تعلق نہیں‘ بلکہ اس کے تانے بانے اُس مائنڈ سیٹ سے ملتے ہیں جس نے آزادی کے فوراً بعد کراچی کو سندھ سے الگ کرکے ایک الگ وفاقی حلقہ بنانے کی کوشش کی تھی‘ مگر قائداعظم کی زندگی میں ہی سندھیوں کے بھر پور احتجاج کی وجہ سے وہ اپنے مقصد حاصل نہ کرسکا۔ اس کے بعد یہی مائنڈ سیٹ مختلف نعروں مثلاً '' مہاجر صوبہ ‘‘ دیہی اور شہری اور لسانی بنیادوں پر سندھ کی تقسیم کی صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے ۔ ان منصوبوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ کے عوام رہے ہیں‘ خواہ ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہو یا قوم پرست جماعتوں سے۔ خصوصاً پیپلز پارٹی ان قوتوں کی مخالفت کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی چلی آرہی ہے‘ دشنام طرازی اور تحقیر آمیز ریمارکس ‘ قوم پرست جماعتوں اور رہنمائوں کے حصے میں بھی آتے رہے ہیں ‘ مگر اپنے عزائم کی تکمیل میں ان مخصوص حلقوں نے‘ قوم پرست سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو کبھی زیادہ اہمیت نہیں دی ‘ تاہم پیپلز پارٹی کا معاملہ اور ہے۔ یہ پارٹی سندھ اور سندھی عوام کے مفادات کی محافظ ہونے کے علاوہ‘ وفاق کی بھی حامی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی لبرل اور سیکولر جمہوری سوچ کی حامل ہے اور انتخابات میں دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ صوبائی انتخابی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی 2008 ء سے سندھ میں بغیر کسی دوسری جماعت کو اپنے ساتھ ملائے حکومت کرتی چلی آرہی ہے ‘مگر پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تقریباً کلی طور پر صوبے کے دیہی اور سندھی بولنے والے لوگوں کے علاقوں تک محدود ہے ‘جبکہ شہری اور اردو بولنے والے لوگوں کے علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھاری حمایت حاصل رہی ہے۔تاہم 2018 ء کے انتخابات میں اس کا ووٹ بینک تقسیم ہوگیا تھا اور پاکستان تحریک انصاف نے کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کر لیے ۔
انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہونے کے باوجود حکومت سازی میں ایم کیو ایم (پاکستان) نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور اس کے سات ارکانِ قومی اسمبلی نے عمران خان کے حق میں ووٹ ڈال کر انہیں وزیراعظم منتخب ہونے میں مدد دی۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کو بہت کم ووٹوں سے حزب مخالف میں شامل جماعتوں کے مجموعی ووٹوں پر برتری حاصل ہے۔ ایم کیو ایم نے تو اس سلسلے میں ایک سے زائد مرتبہ پی ٹی آئی کو اپنی اہمیت جتلائی بھی ہے ‘بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ عمران خان ایم کیو ایم کے ووٹوں کی وجہ سے وزیراعظم بنے اور اب بھی ان ہی کی بدولت وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہیں‘ لیکن ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کی بنیاد صرف اقتدار میں شرکت نہیں بلکہ کسی حد تک سیاسی نقطہ نظر میں ہم آہنگی بھی ہے‘ مثلاً دونوں سیاسی جماعتیں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو مالی اور انتظامی معاملات میں چلنے والی صوبائی خود مختاری کے خلاف ہیں‘ اس لئے وہ اس آئینی ترمیم کو رول بیک یا اس میں بنیادی تبدیلی کی حامی ہیں۔ اس کے علاوہ دنوں جماعتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کے سیاسی غلبے کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کا بھر پور دفاع اور صوبے کے معدنی ذخائر پر سندھی عوام کے حق پر اصرار بھی ہوسکتا ہے۔ مگر ایم کیو ایم کے لئے پیپلز پارٹی اس کے پرانے ایجنڈے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے اس کی طرف سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے تعاون کرنے کی بجائے محاذ آرائی کی پالیسی اپنائی جاتی ہے‘ بلکہ کراچی میں امن و امان ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری اور سٹریٹ کرائم سے لے کر پڑھے لکھے نوجوانوں کی بیروزگاری اور شہر میں صفائی اور انفراسٹرکچر کی کمی جیسے تمام مسائل کا پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر کراچی کو کبھی فوج کے حوالے کرنے اور کبھی ایک علیحدہ انتظامی یونٹ قرار دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دورِ حکومت میں جب سپریم کورٹ کی ہدایات پر وفاقی حکومت نے کراچی میں پولیس اور رینجرز کے آپریشن کا ارادہ باندھا تو ایم کیو ایم کی طرف سے مخالفت کے باوجود وزیراعظم محمد نوازشریف نے اس کی قیادت سندھ حکومت کے حوالے کر دی اور صوبے کے چیف منسٹر قائم علی شاہ کو آپریشن کا '' کپتان‘‘ مقرر کر دیا۔ اس آپریشن کے تحت کراچی میں امن و امان کے قیام میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں وفاق اور صوبے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں ہونے کے باوجود ‘ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر تھیں‘ مگر پی ٹی آئی کی وفاقی اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ایک پیج پر نہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی گورنر اور وفاقی حکومت کے بعض اراکین تسلیم کرتے ہیں کہ کراچی میں کوئی بھی منصوبہ صوبائی حکومت کو آن بورڈ لیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا‘ مگر عملی طور پر وفاقی حکومت کراچی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو بائی پاس کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کراچی کے بارے میں جس منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے اس کا یک طرفہ طور پر اعلان کیا گیا ہے ۔
گزشتہ ایک برس میں وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے متعدد دورے کئے ‘ مگر ایک دفعہ بھی صوبائی وزیراعلیٰ سے ملاقات نہیں کی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان یہ تنائو ملک اور نہ صوبے کے مفاد میں ہے‘ مگر ایم کیو ایم کے لئے سود مند ہے‘ کیونکہ وہ پی ٹی آئی کی موجودہ وفاقی حکومت کی مدد سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو کراچی کے معاملات سے بے دخل کرنا چاہتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 149 کے سندھ میں نفاذ کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں‘ لیکن اس تجویز کے خلاف صرف پیپلز پارٹی ہی نہیںبلکہ دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے بھی جو ردعمل آیا ہے اس سے امید ہے کہ وفاقی حکومت اس اقدام سے اجتناب کرے گی۔