نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس باقاعدہ شروع ہو چکا ہے۔ عالمی مسائل پر ادارے کے رُکن ممالک اپنے اپنے مؤقف کا اظہار کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ ایک بڑا پلیٹ فارم ہے اور اس پر زیر بحث آنے والے مسائل بھی عالمی نوعیت کے ہیں، اس لیے دنیا بھر کے عوام اور میڈیا کی توجہ بھی نیویارک پر مرکوز ہے۔ مگر اس سے ہٹ کر علاقائی سطح پر ایک اور سفارتکاری بھی جاری ہے۔ اور وہ ہے‘ افغان طالبان کی طرف سے پڑوس میں واقع ممالک کے ساتھ افغان مسئلے کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے بارے میں حکمت عملی پر صلاح مشورے کا عمل۔ علاقائی سطح پر جاری اس سفارت کاری کی اہمیت کسی طرح بھی کم نہیں کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان مذاکراتی عمل کو اچانک معطل کرنے سے افغانستان میں جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک کے عوام بھی سخت تشویش کا شکار ہیں‘ اور امریکہ طالبان مذاکرات کے سلسلے کو بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت طالبان کے ایک وفد نے بیجنگ میں چینی حکام سے حال ہی میں بات چیت کی۔ طالبان وفد میں شامل ایک سینئر رہنما نے اپنا نام لیے بغیر انکشاف کیا کہ اس دورے کا اصل مقصد افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے مسئلے پر چین کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ چین کے ساتھ افغان طالبان کا یہ پہلا رابطہ نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ متعدد بار براہ راست دو طرفہ اور کثیر جہتی بنیادوں پر چینی حکام سے مل چکے ہیں۔ چین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا حامی ہے۔ اس لئے ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں چین نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا، لیکن چین افغانستان میں فوری جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات پر بھی زور دیتا ہے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ایک اجلاس میں بھی ان امور پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ چینی حکام سے ملاقات سے قبل طالبان کے ایک وفد نے تہران کا بھی دورہ کیا تھا اور انہی مسائل پر ایرانی حکام سے بات چیت کی تھی۔ ایرانی حکام سے طالبان رہنمائوں کی اس سے قبل ملاقات تہران میں دسمبر 2018ء کو بھی ہوئی تھی۔ ایران کی طرف سے طالبان کے اس مؤقف کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے کہ غیر ملکی فوجوں کو افغانستان سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ سفارت کاری کی اس مہم میں طالبان کے ایک وفد نے 15 ستمبر کو ماسکو میں روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابیلوف سے ملاقات کی تھی اور ان کے ساتھ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ روس نے بھی افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر طالبان کے مؤقف کی حمایت کی ہے‘ بلکہ روس کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی میں ملک میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ چین کی طرح، روس کے ساتھ بھی طالبان کے حال ہی میں متعدد بار روابط قائم ہو چکے ہیں۔ ان روابط میں فریقین کے درمیان افغانستان میں جنگ بند کرنے اور مستقل امن کے قیام پر بات چیت ہوئی ہے۔ طالبان کے قریبی ذرائع کے مطابق، چین، روس اور ایران کے بعد، طالبان وسط ایشیائی ریاستوں اور پاکستان میں بھی اپنے وفود بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
افغان طالبان کی طرف سے علاقائی سطح پر سفارتکاری کی یہ مہم کئی لحاظ سے اہم ثابت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین سمیت پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک افغانستان کی ہمسائیگی میں واقع ہونے کی وجہ سے افغانستان کے حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ اس وقت یہ تمام ممالک افغانستان میں فوری جنگ بندی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے حامی ہیں‘ لیکن دیرپا امن کے قیام کیلئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ ان تمام ملکوں اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہیں بلکہ چین کی طرف سے افغانستان کی معیشت کے کئی شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔ چین اور افغان حکومت کے حکام کے مابین حال ہی میں ہونے والی ملاقاتوں میں چین نے پا کستان اور چین کے درمیان تجارتی اور معاشی راہداری ''سی پیک‘‘ کا دائرہ افغانستان تک پھیلانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اسی طرح ایران نے نہ صرف ثقافتی شعبے میں افغانستان کے ساتھ میل جول کو وسیع کر رکھا ہے، بلکہ افغانستان میں قومی ترقی اور تعمیر کے شعبے میں ایران افغانستان کا ایک اہم پارٹنر ہے۔ ان تمام ممالک کا افغانستان کے مسئلے کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں اپنا ایک نقطۂ نظر ہے‘ جس کے بعض پہلوئوں کے تحت وہ طالبان کے ساتھ بعض امور پر متفق ہیں اور بعض پر نہیں۔ مثلاً غیرملکی افواج کے انخلا پر طالبان اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کا مؤقف یکساں ہے؛ تاہم افغان حکومت‘ جس کی اس وقت قیادت اشرف غنی کے ہاتھ میں ہے، کے بارے میں طالبان کا مؤقف روس، چین اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک مثلاً پاکستان اور ایران کو قابل قبول نہیں۔ طالبان ڈاکٹر غنی کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں اور وہ متعدد بار برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ اس حکومت کے ساتھ نہ تو جنگ بندی کا معاہدہ کریں گے اور نہ ہی اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے؛ البتہ اشرف غنی کی حکومت کے اہلکار ملک کے دیگر سیاستدانوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ہمراہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں حصہ لے سکتے ہیں‘ مگر ان کی یہ شرکت انفرادی حیثیت میں ہوگی‘ وہ کابل انتظامیہ کے نمائندوں کی حیثیت سے مذاکرات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تقریباً ایک سال تک مذاکرات کے بعد فریقین نے جس معاہدہ پر اتفاق کر لیا تھا، اس میں امریکہ نے طالبان کی ان شرائط کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے نہ صرف کابل انتظامیہ بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی حکومتیں اور خود امریکہ میں کانگریس اور حکومت کے بعض حلقوں کو اس معاہدے پر تحفظات تھے‘ جن کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ مذاکراتی عمل کے تعطل کے بعد افغان طالبان نے علاقائی سطح پر ہمسایہ اور دوست ممالک کے ساتھ سفارتی روابط اور صلاح مشورے کے جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ خوش آئند ہے اور اس کے مثبت اور تعمیری نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے اس اقدام کے آغاز کا مطلب ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کی سوچ اور پالیسیوں کو اہمیت دینے پر تیار ہو گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے خدشات کو دور کرنا نہ صرف علاقائی امن کیلئے لازم بلکہ خود ان کے مفاد کیلئے بھی ضروری ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت سے افغان طالبان کو ان کے خدشات سے قریب سے واقف ہونے کا موقعہ ملے گا۔ اس سے ان کے اب تک کے غیر لچکدار رویے میں تبدیلی کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے ایک عرصہ سے علاقائی اپروچ کی سفارش کی جا رہی تھی، لیکن اس سمت میں اگر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی، تو اس کی وجہ امریکہ اور طالبان کا منفی رویہ تھا۔ لیکن اب طالبان نے اس اپروچ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے قدم اٹھائے ہیں۔
چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی ڈائیلاگ پراسیس کے تحت افغانستان میں امن کے قیام کے بارے میں جو کوششیں کی جا رہی ہیں، امریکہ کی طرف سے ان کی حمایت کی جا چکی ہے۔ گزشتہ سال نومبر اور امسال فروری میں روس نے افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے پاکستان، چین، افغانستان، بھارت، ترکی اور ایران کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے علاقائی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی جو کوشش کی، امریکہ نے اس کی بھی حمایت کی تھی۔ افغانستان میں امن اور جنگ بندی کیلئے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اگرچہ معطل ہیں مگر اغلب رائے یہی ہے کہ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ ہر جنگ اور جھگڑے کا خاتمہ بالآخر مذاکرات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ افغانستان کے ضمن میں اس اصول پر عملدرآمد اور بھی ضروری ہے، کیونکہ گزشتہ 18 سال کے دوران افغان بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اس جنگ کو اختتام کے قریب لانے اور افغانستان کے مسئلے کا ایک ایسا حل‘ جو سب فریقوں کیلئے قابل قبول ہو، تلاش کرنا سب سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے۔