اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں سالانہ اجلاس سے کشمیر کے مسئلے پر وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بارے ملک کے اندر اور باہر تقریباً متفقہ رائے یہی ہے کہ یہ نہایت مدلل‘ مؤثر اور فوکسڈ خطاب تھا۔ اپنے اس خطاب میں وزیراعظم بین الاقوامی برادری کو جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے‘ وہ انہوں نے کامیابی سے پہنچا دیا۔ وہ پیغام یہ ہے کہ 5 اگست کے بعد سے اب تک 80 لاکھ کشمیری جن سنگین حالات سے گزر رہے ہیں‘ انہیں ختم کرانے میں بین الاقوامی برادری نے مداخلت نہ کی‘ تو جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ وادیٔ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ 71 سال قبل اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اس لیے انہوں نے زور دے کر کہا کہ اقوام متحدہ پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت استعمال کرنے کا موقعہ فراہم کرے‘ لیکن کیا اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کی موجودہ صورتحال میں مداخلت کے کوئی آثار نظر آتے ہیں؟ وزیراعظم کی تقریر اور پر زور الفاظ میں فوری اقدام کے لیے اپیل کے باوجود اقوامِ متحدہ کی طرف سے کسی عملی اقدام کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘ لیکن معاملہ صرف تقریر تک ہی محدود رہا ہے‘ اسمبلی میں تو ایسی قرارداد بھی پیش نہیں کی جا سکی جس میں بھارت کے حالیہ اقدامات کی مذمت کے ساتھ کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا جا سکتا‘ لیکن اگر ایسی قرارداد پیش ہونے کے بعد منظور بھی ہو جاتی‘ تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ ماضی میں جب روس (سابقہ سوویت یونین) نے افغانستان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 1980ء کے بعد ہر سال افغانستان میں روسی جارحیت کے فوری خاتمے اور روسی فوجیں واپس بلانے کے مطالبے پر مشتمل بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کیا کرتی تھی‘ لیکن روسی فوجیں افغانستان سے جنرل اسمبلی کی قراردادوں سے واپس نہیں گئیں ۔ اسی طرح اسرائیل کے خلاف جنرل اسمبلی میں درجنوں قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں‘ لیکن اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقے خالی نہیں کیے۔ اسی طرح ایشیا اور افریقہ سے نو آبادیاتی طاقتوں کو بھگانے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کہیں زیادہ ان نو آبادیات کے عوام کی جدوجہد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے وزیراعظم کی تقریر اپنی جگہ مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد بین الاقوامی برادری یا اقوام متحدہ پاکستان کی امیدوں اور توقعات پر کہاں تک پوری اترتی ہے۔ اس سلسلے میں چند مثبت اشارے ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں‘ مثلاً: امریکہ کی ایک سینئر اہلکار ایلس ویلز ‘جو اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امورہیں‘ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو سمیت دیگر تمام عائد شدہ پابندیوں کو اٹھائے۔ بھارت کی سپریم کورٹ اس سے پہلے 16 ستمبر کو مودی حکومت کو اسی قسم کے اقدامات کی ہدایت دے چکی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی جارحانہ سفارت کاری کا ایک اہم نتیجہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ دنیا نے اب اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے اور بعض ممالک اس کے حل پر زور دے رہے ہیں مثلاً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی اپنی تقاریر میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے ۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک نے بھی پاکستانی مؤقف کی حمایت میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا ہے۔
تاہم حل کی طرف پیش قدمی کی صورت میں جس فریم ورک یا طریقہ کار کو اب بھی بین الاقوامی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو بالآخر پاکستان اور بھارت نے خود باہمی اور پر امن بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے۔ اس کیلئے وزیراعظم کی تقریر کے بعد کسی طرف سے بھی اگر کوئی کوشش کی جاتی ہے‘ تو اس کا ابتدائی ہدف پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کر کے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہوگا۔ فوری طور پر اگرچہ اس کا امکان کم نظر آتا ہے‘ کیونکہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی پابندیاں نہیں اٹھاتا پاکستان اس وقت تک مودی حکومت سے بات چیت نہیں کرے گا۔ جہاں تک دفعہ 370 کا تعلق ہے ‘ یہ مسئلہ بھارت کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے‘ اس لیے اس پر کسی قسم کی کارروائی سے معذرت کیلئے نریندر مودی کی حکومت کے پاس ایک معقول بہانہ موجود ہے‘ مگر مقبوضہ ریاست میں کرفیو کے نفاذ اور لاک ڈائون کو جاری رکھنے کیلئے بھارتی حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اس مسئلے پر بھارت کو سخت بین الاقوامی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ کی طرف سے اس نوعیت کا بیان جاری کیا جا چکا ہے اور دیگر حلقوں‘ جن میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی شامل ہیں‘ کی طرف سے بھی بھارت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان غیر انسانی اور غیر قانونی پابندیوں کو ختم کر دے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر سے آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ریاست کے تمام اضلاع میں دن کے وقت کرفیو کی پابندیوں کو نرم کیا جا رہا ہے‘ لیکن مسئلے کا حل کرفیو کی پابندیاں اٹھانے سے حاصل نہیں ہوگا۔ اصل مقصد اس مسئلے کا دیر پا اور مستقل حل تلاش کرنا ہے جو پاکستان‘ بھارت اور کشمیری عوام تینوں فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اقوام متحدہ کے ذریعے اس حل کے حصول کیلئے حرکت میں آئے یا بڑی طاقتیں خصوصاً امریکہ اس میں ثالثی کا کردار ادا کریں ۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ خواہش کے اظہار کے باوجود امریکہ نے سرکاری طور پر اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ صرف اسی صورت ثالثی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہوگا‘ جب پاکستان اور بھارت اس پر اپنی آمادگی کا اظہار کریں گے۔ اسی طرح چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں جہاں کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور ادارے کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر کا مسئلہ حل کرتے وقت دو طرفہ باہمی معاہدات سے بھی رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔ کشمیر کے ضمن میں جب کبھی پاک بھارت دو طرفہ معاہدے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد 1972ء کا شملہ معاہدہ ہوتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان اور بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ خود سلامتی کونسل بھی ان ہی خطوط پر مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ مسئلہ قرار دے کر‘ اسے دونوں ملکوں کے درمیان پُر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے چکی ہے۔
خدشہ ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور دیگر پابندیوں میں نرمی کے بعد کشمیری عوام آزادی کے حق میں مظاہرے کریں گے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز ان مظاہروں کو اگر بزور طاقت دبانے کی کوشش کریں گی تو ریاست میں خون خرابے کا قوی امکان ہے۔ ایسی صورت میں اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو ایک دفعہ پھر زیر بحث لاتی ہے‘ تو نتیجہ صرف ایسی قرارداد کی شکل میں ہی آ سکتا ہے جس میں پاکستان اور بھارت پر باہمی کشیدگی کم کرنے اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے پر زور دیا جائے ۔ وزیراعظم کی پر جوش تقریر اپنی جگہ‘ لیکن جیسا کہ کسی نے درست کہا ہے کہ تقریروں سے قوموں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ایک روڈ میپ پیش کرنا پڑتا ہے اور ایک طویل المیعاد ‘ہمہ گیر حکمت عملی کو پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے ایک مؤثر تقریر تو کی‘ لیکن دو باتوں کو چھوڑ گئے‘ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کا حتمی گول کیا ہوگا؟ اور اس مقصد کیلئے کونسا رد عمل اختیار کیا جائے گا؟ چونکہ مسئلہ صرف کشمیر کے علاقے اور اس کے عوام یا پاک بھارت باہمی تعلقات نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا بھر کے امن سے ہے‘ اس لئے اس پر ملک گیر اور سیر حاصل قومی بحث ہونی چاہئے۔