امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی اچانک تنسیخ کے بعد متعلقہ حلقوں کی طرف سے اسے دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں جاری ہیں‘ کیونکہ امریکہ ہو یا طالبان ‘افغانستان سے متعلقہ تمام سٹیک ہولڈرز ایک بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام پرامن بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ گزشتہ سال جولائی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اس مقصد کے لیے بات چیت کا جو سلسلہ دوحہ میں شروع ہوا تھا‘ اس سے کافی امیدیں پیدا ہو گئی تھیں۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے یہ اشارے دئیے تھے کہ تقریباً تمام نکات پر فریقین میں سمجھوتہ ہو چکا ہے‘ صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔ جن معاملات پر سمجھوتہ ہو ا‘ ان میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بھی شامل تھا‘ مگر 8ستمبر کو صدر ٹرمپ نے اچانک بات چیت کی معطلی کا اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا‘ اگرچہ اس کے باوجود مذاکرات کے اس سلسلے کی بحالی کے مضبوط امکانات بھی موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان اب بھی اس معاہدے کے حق میں ہیں اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مذاکرات کے سلسلے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے موقف کے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لیے طالبان نے چین‘ روس اور ایران کے دورے کئے اور انہی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد گزشتہ دنوں اسلام آباد بھی آیا۔
اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے طالبان کے وفد کی جو بات چیت ہوئی‘ اس کے بارے میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر پاکستان اور طالبان کے موقف میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایران‘ چین اور روس بھی مذاکرات کی بحالی کے حامی ہیں۔ان ممالک کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کی حمایت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ افغانستان میں امن کی خواہش رکھتے ہیں ‘ مگر یہ امریکی افواج کے انخلا کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کا موقف یہی ہے کہ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد اور طالبان میں جو معاہدہ طے پایا تھا‘ وہ مزید بات چیت کے لئے مضبوط بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کی جلد بحالی کے مطالبے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت‘ طالبان اور پاکستان بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی اقدام کے جواب میں اگر افغان طالبان نے بھی اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تو ملک میں جنگ مزید تیز ہو جائے گی اور اس کو قابو میں رکھنا دشوار ہو جائے گا۔ افغان حکومت اور اس کے اتحادی یعنی امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان میں مزید خونریزی کو روکنا چاہتے ہیں‘ اس مقصد کے لئے امریکہ اور افغان حکومت نے طالبان سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اگر مذاکرات بحال نہیں ہوتے اور اس کے نتیجے میں جنگ مزید شدت اختیار کر تی ہے تو اس میں جانی نقصان کی ذمہ داری افغان طالبان کے علاوہ امریکہ پر بھی برابر عائد ہوگی۔ دوسری جانب رائے عامہ جو پہلے ہی خانہ جنگی سے بیزار ہے‘ طالبان کو بھی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ اگرچہ طالبان نے کبھی رائے عامہ کا احترام نہیں کیا ‘تاہم اس طرز عمل کو جاری رکھنے سے طالبان عوام کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے ‘ جو کہ ان کے عزائم کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کی رائے میں اگرچہ افغان طالبان نے گزشتہ ایک برس کے دوران اپنے زیر اثر رقبے میںاضافہ کیا ہے اور افغان سرکاری افواج کے مقابلے میں ان کا پلہ بھاری ہے‘ مگر وہ ابھی تک ملک کے کسی بڑے شہر یا آبادی والے علاقے پر قبضہ کر کے اسے برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ شب خون‘ اچانک حملوں اور خودکش دھماکوں کے ذریعے وہ افغانستان کے کسی بھی علاقے اور شہر میں سرکاری املاک اور فوجوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ مگر وہ امریکی افواج کی موجودگی میں ویت نام کی تاریخ دہراتے ہوئے‘ ملک پر نہ تو قبضہ کر سکتے ہیں اور نہ اس قبضے کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ طالبان بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ عدم مذاکرات کا مطلب شدید جنگ کا ایک لامتناہی سلسلہ ہو گا۔
اسلام آباد میں طالبان وفد کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو طالبان کو دو امور پر راضی کرنے کا فریضہ سونپا ہے‘ ایک یہ کہ مذاکرات کی بحالی کے ساتھ ہی طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں اور دوسرا یہ کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو جائیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کی کاوش کب کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے‘ مگر یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی طرف سے ان دونوں امور پر لچک دکھائے بغیر مذاکرات بحال نہیں ہو سکتے۔ اب تک طالبان نے ان پر ایک غیر لچکدار رویہ اپنائے رکھا ہے‘ مگر علاقائی طاقتوں خصوصاً پاکستان کی طرف سے ان پر دباؤ ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا راستہ صاف کرنے اور اس طرح ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لئے جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہو جائیں‘ لیکن اگر طالبان کی طرف سے کچھ لچک کے مظاہرے کے بعد مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے تب بھی اسے آگے بڑھانے کے لیے بہت سی رکاوٹوں کو دور کرنا پڑے گا۔ طالبان کی طرف سے اصرار کیا جائے گا کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نو راؤنڈ کے بعد جو باتیں تسلیم کی ہیں‘ ان پر ہر حال میں عمل درآمد ہونا چاہئے۔ اگرچہ ابھی تک معاہدے کی تمام تفصیلات کو ظاہر نہیں کیا گیا‘ تاہم طالبان کے حلقوں نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ افغان طالبان کو'' امارات اسلامیہ افغانستان‘‘ کا نام اور اس کا سفید جھنڈا استعمال کرنے پر راضی ہو گیا تھا۔ طالبان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکہ سے یہ منوا لیا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران افغانستان کی سرکاری افواج کے ساتھ لڑائی جاری رہے گی اور امریکی فضائیہ ان کی مدد کو نہیں آئے گی۔ امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ان دعووؤں کی تصدیق نہیں کی ‘بلکہ ان کا آخری وقت تک موقف یہ تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدے میں جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات بھی شامل ہوں گے اور ان پر اتفاق کے بغیر کسی معاہدے پر دستخط نہیں کئے جائیں گے۔ اس لئے اگر مذاکرات کی بحالی عمل میں آتی ہے تو سب سے پہلے طے پا جانے والے معاہدے کی مختلف شقوں کے مفہوم کے بارے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اختلاف کو دور کرنا ہوگا۔دوسری اہم رکاوٹ فریقین کے درمیان ایک عرصے سے پائے جانے والے گہرے شکوک و شبہات اور بداعتمادی کا خاتمہ ہے۔ طالبان آغاز میں امریکہ سے مذاکرات کے اس لئے مخالف تھے کیونکہ انہیں امریکہ پر اعتماد نہ تھا۔ بڑی کوشش سے یہ اعتماد بحال ہوا اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ‘مگر صدر ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات کو اچانک معطل کرنے کے اعلان سے اس اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ اب اس اعتماد کو بحال کرنے میں وقت لگے گا۔ دوسرا مسئلہ پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان شکوک و شبہات اور بداعتمادی کی وسیع خلیج ہے‘ جسے بدقسمتی سے لاکھ کوششوں کے باوجودپاٹا نہیں جا سکا۔
افغان حکومت کو شکایت ہے کہ امریکہ اور پاکستان کابل انتظامیہ کو افغان امن عمل سے باہر رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے موقف کے حق میں اس نے بعض اقدامات کی نشان دہی بھی کی ہے‘ جن میں حال ہی میں اسلام آباد میں افغان طالبان کے وفد کا پورے پروٹوکول کے ساتھ استقبال بھی شامل ہے۔ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک طرف حکومت پاکستان صدر اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان کی واحد جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے تو دوسری جانب وہ افغان طالبان کے وفد کا سرکاری استقبال کرتی ہے۔ افغان حکومت پاکستان کے اس اقدام کو سفارتی آداب کے منافی قرار دیتی ہے‘ اس کے ساتھ ہی افغان صدر کے ترجمان نے اعلان کیا کہ افغان حکومت امن کے صرف اس عمل کو تسلیم کرے گی جسے افغان عوام کی حمایت حاصل ہو‘ مگر اس کی قیادت افغان حکومت کے پاس ہو۔ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے کوشاں تمام فریق تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے معاہدے میں افغان حکومت کی شرکت ضروری ہے‘ مگر طالبان کی طرف سے سخت مخالفت نے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مذاکرات کی بحالی کے ساتھ اس پیچیدگی کو دور کرنا بھی اشد ضروری ہے۔