امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورِ حکومت اپنی کئی خصوصیات کی بنا پر تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان میں سے ایک تو صدرکے اپنے بعض فیصلے اور بیانات ہیں‘ جن کا نہ کوئی سیاق و سباق ہے اور نہ کوئی تاریخی یا سیاسی جواز۔ ان بیانات میں سے ایک حال ہی میں امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بارے میںہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں مداخلت کر کے سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے یہ بیان گزشتہ دنوں شام سے امریکی افواج کے نکالے جانے اور اس کے نتیجے میں وہاں ترک فوج کی کارروائی کے حوالے سے دیا؛ تاہم اس میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کے پورے خطے اور اس میں امریکی مداخلت کا نام لیا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ صدر ٹرمپ امریکہ کے مفادات کیلئے مشرق وسطیٰ کی اہمیت اور اس کے سیاسی اور عسکری امور میں براہ راست مداخلت‘ خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد کی تاریخ سے ناواقف ہوں‘ اس لیے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو تاریخی حقائق جھٹلانے اور دنیا کو گمراہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس بیان کو دراصل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ہاتھوں ہونے والی نا انصافیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔
شام کے شمال مشرقی علاقے میں امریکہ کی تقریباً دوہزار کے قریب فوج کی موجودگی، خطے میں امریکی مداخلت کی واحد مثال نہیں‘ مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت کی تاریخ بڑی پرانی اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسے اجاگر کرنے کیلئے ہم صدر ٹرمپ کی خدمت میں کچھ سوالات پیش کریں گے‘ مگر اس سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ اگرچہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ثقافتی اور تجارتی روابط کا آغاز 19 ویں صدی سے چلا آ رہا ہے، مگر خطے کی سیاسی، معاشی اور سکیورٹی معاملات میں امریکہ کی بھرپور اور براہ راست مداخلت دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس سے قبل مشرق وسطیٰ، برطانیہ اور فرانس کے زیر اثر خطہ سمجھا جاتا تھا۔ مشرق وسطیٰ کا موجودہ سیاسی نقشہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اتحادی ممالک یعنی برطانیہ اور فرانس کے درمیان مال غنیمت کی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اس تقسیم کو برطانیہ اور فرانس نے لیگ آف نیشنز کے ذریعے قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کے ہاتھوں برطانیہ اور فرانس کو اس قدر نقصان پہنچا کہ فتح حاصل کرنے کے باوجود اس قابل نہیں تھے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ پر اپنا غلبہ برقرار رکھ سکیں۔ ان کی جگہ لینے کیلئے امریکہ کو آگے آنا پڑا‘ اور یہ اقدام امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے عوام کی محبت میں سرشار ہو کر نہیں کیا تھابلکہ جنگ کے بعد سوویت یونین کی شکل میں مغربی مفادات کو چیلنج کرنے والا ایک اور خطرہ بین الاقوامی سیاست کے افق پر نمودار ہو چکا تھا۔ مشرق وسطیٰ جو اپنے جغرافیائی محل وقوع اور شاہراہ ریشم کی مختلف گزر گاہوں کے سنگم کی وجہ سے قدیم زمانے سے عالمی اہمیت کا مالک تھا دوسری جنگ عظیم کے بعد تیل کی پیداوار کی بنا پر یورپ اور امریکہ کیلئے مزید اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ اس لیے اسے سوویت یونین اور خطے میں اس کے حامی عناصر سے بچانے کیلئے امریکہ کو برطانیہ اور فرانس کی جگہ لینا پڑی۔ اس کے لیے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک اڈے کی ضرورت تھی۔ یہ مقصد 1948ء میں فلسطین میں اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام کی صورت میں پورا کیا گیا۔ اگر صدر ٹرمپ شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت کو اپنے ملک کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اس مسئلے پر سچ بولنا چاہئے۔
شام میں فوجی دستے بھیجنا امریکہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی واحد اور پہلی مثال نہیں۔ امریکہ نے طاقت کے ذریعے خطے کے سیاسی حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے کی کوشش سب سے پہلے 1952ء میں لبنان میں کی تھی جب مصر میں قوم پرست فوجی افسروں کی قیادت میں انقلاب کے بعد مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں کی طرح لبنان میں بھی مغرب نواز حکومت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں عوامی مظاہروں نے ملک کو ایک انقلاب کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا‘ مگر اس تبدیلی کا راستہ روکنے کیلئے امریکہ نے بحیرہ روم میں موجود اپنے چھٹے بحری بیڑے کے جہازوں کو لبنان کے ساحل کے قریب لا کھڑا کیا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مداخلت کی دوسری مثال 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی ہے۔ اس کارروائی میں سی آئی اے نے جو کردار ادا کیا تھا وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ کیا امریکی صدر اسے بھی غلطی ماننے پر تیار ہیں یا اسے مشرق وسطیٰ خصوصاً خلیج فارس پر امریکی تسلط کی خاطر ایک کامیاب کارروائی سمجھتے ہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ 1948ء سے اب تک امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ چلا آ رہا ہے‘ امریکہ کی مالی اور فوجی امداد کے بغیر اسرائیلی ریاست زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس کا سب سے نمایاں ثبوت 1973ء میں چوتھی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو عین اس موقعہ پر اسلحہ اور بھاری ہتھیاروں کی فراہمی ہے جب اسرائیلی فوج شکست کھا چکی تھی اور مصری اور شامی فوجیں اسرائیلی علاقے میں داخل ہونے کیلئے تیار تھیں۔ اگر صدر ٹرمپ شام میں امریکہ کے صرف دو ہزار فوجیوں کی موجودگی کو اپنے ملک کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیںتو 1991ء میں پہلی خلیجی جنگ میں 19 عرب ملکوں کی نام نہاد متحدہ فوج کے ساتھ عراق پر چڑھائی کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟اب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ 1990ء میں کویت پر حملے کیلئے صدام حسین کو امریکہ نے ہی ترغیب دی تھی اور پھر سعودی عرب کے پیسے اور باقی عرب ملکوں کے نام کو استعمال کر کے اپنی فوج کے ساتھ عراق پر حملہ کر کے اسے معاشی طور پر کئی برس پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو 2003ء میں بغیر کسی جواز کے عراق پر زمینی، ہوائی اور بحری فوج کے ساتھ حملہ کر کے ملک کو نہ صرف فوجی بلکہ معاشی ، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے بھی تباہ کر دیا۔ کیا صدر ٹرمپ عراق کے خلاف امریکہ کی اس جارحیت کو اپنے ملک کی غلطی تسلیم کرنے پر تیار ہیں؟
اگر صدر ٹرمپ شام کے ایک چھوٹے سے علاقے سے صرف ایک دو ہزار امریکی فوجیوں کو نکال کر ''امریکہ کی سب سے بڑی غلطی‘‘ کی تلافی کرنا چاہتے ہیںتو جبرالٹر سے بحرین اور ڈیاگوگارشیا تک امریکی بحری اڈوں کے قیام اور ان اڈوں کے ارد گرد امریکہ کے تین بحری بیڑوں (پانچواں، چھٹا اور ساتواں) سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں تباہ کن جہازوں، فریگیٹس، آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی موجودگی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ خلیج فارس کے ارد گرد پانیوں میں اس سے قبل بحری، زمینی اور ہوائی طاقت کا اتنا بڑا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ امریکہ نے طاقت کے اتنے بڑے اجتماع کا آخر کار کیوں اہتمام کر رکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ امریکی حکام اس کا صحیح جواب دینے سے احتراز کریں گے۔ دیگر دنیا خوب جانتی ہے کہ امریکہ اپنی جنگی قوت کے ذریعے خلیج فارس اور جزیرہ نما عرب میں ایسی حکومتوں اور عناصر کو مرعوب کرنا چاہتا ہے جو مشرق وسطیٰ کے بارے میں اس کی پالیسی سے اختلاف کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ جہاں تک شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سوال ہے تو صدر ٹرمپ نے اسے امریکہ کی سب سے بڑی غلطی قرار دے کر اصل عزائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ نے یہ فوجی دستہ داعش کی بیخ کنی کیلئے نہیں بلکہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف برسر پیکار اپوزیشن کو تقویت پہنچانے کیلئے بھیجا تھا۔ جہاں تک داعش کو ختم کرنے کے بارے میں امریکہ کے دعووں کا تعلق ہے تو یہ دعوے سفید جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں‘ امریکہ تو خود داعش کی پیدائش کا ذمہ دار ہے اور گزشتہ پانچ برسوں میں داعش نے شام اور عراق میں جتنی بھی پیش قدمی کی وہ امریکہ کی اعانت کے سبب ممکن ہوئی۔ اب بھی شام سے اپنے فوجی دستے واپس بلا کر، امریکہ دراصل داعش کے خلاف شام کی سرکاری افواج کی کامیابیوں کا سلسلہ منقطع کرنا چاہتا ہے‘ کیونکہ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے داعش کے خلاف صف آرا کُرد ملیشیا ترکی کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک جو داعش کے خطرے کو ہمیشہ کیلئے ختم کر کے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے خواہش مند ہیں، صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے مخالف ہیں۔