سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں جو خوش گوار جیو پولیٹیکل تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں، ان میں مشرق وسطیٰ میں ترکی اور عرب ریاستوں کے درمیان دوستی‘ خیر سگالی بلکہ متعدد شعبوں میں تعاون پر مبنی قریبی تعلقات کا آغاز بھی شامل ہے۔ لیکن شام کے بحران اور اس میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال نے صرف شام کو ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کو ترکی کے خلاف صف آرا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ شام کا بحران 2011 میں عرب دنیا میں پیدا ہونے والی احتجاجی تحریک کا ایک حصہ ہے۔ یہ تحریک‘ جو تیونس میں شروع ہوئی‘ آہستہ آہستہ تقریباً تمام عرب ملکوں میں پھیلتی چلی گئی۔ لیکن بعض ملکوں میں اس کے نتائج میں تشدد اور تباہی کے اثرات زیادہ نمایاں تھے اور ظاہر ہے کہ کچھ میں کم۔ جن ممالک میں تشدد اور تباہی کے اثرات زیادہ نمایاں تھے ان میں شام بھی شامل ہے۔ گزشتہ تقریباً 8 برسوں سے اس ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اس میں لاکھوں افراد‘ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، متحارب فریقین کے درمیان جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ شام کے تمام بڑے بڑے شہر ہوائی جہازوں کی بم باری اور توپوں کی گولہ باری کے نتیجے میں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ اور دور دراز ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ جو آبادی شام میں موجود ہے‘ اس کی حالت دگرگوں ہے۔ جن ملکوں میں شامی مہاجرین نے پناہ لی‘ ان میں ترکی بھی شامل ہے‘ جس نے 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی سے شام کی براہ راست سرحد ملتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو پناہ دینا، ترکی کی ایک بہت بڑی قربانی ہے لیکن حال ہی میں امریکہ کی طرف سے ترکی سے ملحق شام کے شمال مشرقی علاقے سے اپنی فوجوں کو نکال کر اور شامی کردوں پر مشتمل ایک فوج کو پیچھے چھوڑ کر ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے، جس نے شام کو ترکی کے مدِ مقابل لا کھڑا کیا ہے‘ کیونکہ امریکی افواج کے انخلاء کے شروع ہوتے ہی ترکی نے اس علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے فوجیں داخل کر دی ہیں۔ ترکی کی یہ فوجیں کئی شہروں پر قبضے کے بعد متواتر آگے بڑھ رہی ہیں اور شام نے ترکی کی جانب سے اپنے علاقے میں فوجیں داخل کرنے کے اقدام کو اپنے خلاف جارحیت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے شامی کردوں پر مشتمل فوج، جو اس سے پہلے امریکی کمانڈ میں بظاہر ''داعش‘‘ کے خلاف برسر پیکار تھی، کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی اور شام کے مابین ایک مسلح تصادم کا سنگین خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ کئی دیگر عرب ممالک نے اس محاذ آرائی میںشام کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ عرب لیگ‘ جو کہ عرب ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، نے شام کے علاقے میں ترک فوج کی مداخلت کی مذمت کی ہے اور اس مسئلے اور معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا بحران اب ایک نئی اور پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ ابھرتا ہوا بحران ترکوں اور عربوں کے درمیان محاذ آرائی کو بڑھا سکتا کیونکہ ترکی نے شامی علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلانے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کے خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ترکوں اور عربوں کے درمیان مخاصمت اور بد گمانی کی وہ فضا‘ جو پہلی جنگ عظیم کے دوران مشرق وسطیٰ میں ترکوں کے خلاف عربوں کی بغارتوں سے پیدا ہوئی تھی، پھر واپس لوٹ سکتی ہے‘ اور اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہو گا۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل خلیجی ریاستوں کو چھوڑ کر پورا مشرق وسطیٰ ترکی کا حصہ تھا مگر انگریزوں نے اس علاقے کو ہتھیانے کے لیے عربوں کو اپنے مشہور ایجنٹ لارنس آف عریبیہ کے ذریعے ترکی کے خلاف بغاوت پر اُکسایا۔ اس طرح برطانوی فوج کے ساتھ مل کر عربوں نے حجاز، فلسطین، عراق اور شام میں ترکی کی فوجوں پر حملے کئے اور انہیں مشرق وسطیٰ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ انگریزوں نے شریف حسین آف مکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ ترکی سے آزاد کروانے کے بعد پورا جزیرہ نما عرب اس کے حوالے کر دیا جائے گا اور باقی عرب علاقوں کو آزاد مملکتوں کی شکل میں تسلیم کر لیا جائے گا‘ لیکن جنگ کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کر کے اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس بندر بانٹ میں فلسطین کو برطانیہ نے اپنی تولیت میں لے کر یہودیوں سے کئے گئے معاہدہ (اعلان بالفور) کے تحت وہاں یہودی ریاست قائم کرنے کی راہ ہموار کر دی۔ مشرق وسطیٰ میں اپنے خلاف عربوں کی بغاوت کو ترکی نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ میں ترکی نے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نواز امریکی پالیسیوں کی حمایت کی بلکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے اسے اپنے ہاں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت بھی دے دی۔ اس وقت پورے عالم اسلام میں ترکی اور ایران دو ایسے ممالک تھے، جنہوں نے اسرائیل سے باقاعدہ رابطے استوار کر کے یہودی ریاست کو متعدد سفارتی اور تجارتی رعایات دے رکھی تھیں۔ 1950 کی دہائی میں جب پورے عالم عرب میں، عرب قوم پرستی کی لہر زوروں پر تھی اور امریکہ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاہدہ بغداد جیسا دفاعی معاہدہ قائم کیا، تو ایران، پاکستان، عراق، برطانیہ اور فرانس کے ہمراہ ترکی نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ صدر جمال عبدالناصر کے زمانے میں ترکی اور عربوں کے درمیان تعلقات بہت خراب تھے۔ 1956 میں جب نہر سویز پر قبضہ کرنے کے لیے برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کیا تو ترکی نے مصری حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ اس کے جواب میں، صدر ناصر کی حکومت نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کی بجائے یونانی قبرصوں کا ساتھ دیا۔ مگر سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اور خصوصاً ترک لیڈر طیب اردوان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، ترکی اور عربوں کے درمیان ماضی کی تلخیوں کو ختم کر کے خیر سگالی اور باہمی حمایت پر مبنی تعلقات کا ایک بالکل نیا دور شروع ہوا۔ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کم کر کے فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی۔ غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لیے ترکی کے لیڈر اردوان نے جو جرأت مندانہ اقدامات کیے، وہ مشرق وسطیٰ میں ترکی کی نئی پالیسی کا ایک شاندار مظاہرہ تھا۔ مگر اب تک ہونے والی یہ سب پیش رفتیں خطرے میں پڑتی محسوس ہو رہی ہیں۔ ترکی شام کے کردوں کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی سرحد سے ملنے والے شامی علاقے پر مشتمل ایک بفر زون قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مگر شام اسے کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ یہ شام کے حصے بخرے کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو اس سے دونوں ملکوں کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن شام کے لیے یہ تصادم ایک اور تباہی کا پیغام لے کر آئے گا۔ اس تصادم سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کر کے ایک دوسرے کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کریں‘ ورنہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنے پنجے گاڑنے میں مزید مواقع میسر آ جائیں گے کیونکہ ایک مضبوط اور متحد شام اُس کو سب سے زیادہ کھٹکتا ہے۔ تمام مسلم ممالک کو اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں شام اور ترکی کی مدد کرنی چاہیے تاکہ تباہی کے اندیشوں کو کم سے کم سطح پر رکھا جا سکے۔