حکومتی تبدیلی کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک کا خالصتاً اندرونی معاملہ ہوتی ہے اور اس عمل میں زیادہ تر داخلی عوامل ہی کارفرما ہوتے ہیں‘ جبکہ خارجی عوامل یعنی ایک مخصوص خارجہ پالیسی یا دفاعی تعلقات‘ جو اندرونی سیاست پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں‘ بھی بعض حالات میں حکومتی تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ جو ممالک اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے علاقائی یا عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘ ان کی اندرونی سیاست پر خارجہ عوامل نمایاں طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گلوبلائزیشن نے باہمی انحصار کے ذریعے قوموں کو اس قدر قریب کر دیا ہے کہ اب کسی ملک کا اندرونی مسئلہ بھی اس کا خالصتاً یا مکمل طور پر اندرونی مسئلہ نہیں رہا‘ بلکہ اس کے علاقائی یا عالمی مضمرات ناگزیر ہوتے ہیں۔ بحر ہند کے وسط میں واقع سری لنکا بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس میں جمہوری طریقے سے اور عوام کی شرکت کے ذریعے حکومتی تبدیلی کے اثرات کو اُس کی سرحدوں کے باہر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود سری لنکا اپنے مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے علاقائی دفاعی حکمت عملی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی اہلیت کا مالک ہے۔ اس بنا پر سری لنکا میں انتخابات ہوں یا کوئی سیاسی واقعہ‘ فوری طور پر ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔
16 نومبر کو سری لنکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات اور ان کے نتائج بھی ایک ایسا واقعہ ہے جس کے نتائج کا جنوبی ایشیا کے ممالک خصوصاً سری لنکا کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک بھارت اور بین الاقوامی برادری کے بعض اہم اراکین مثلاً چین‘ امریکہ اور جاپان بڑی بے تابی کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔ اس لیے کہ ان تمام ممالک کے سری لنکا کے ساتھ اہم معاشی‘ تجارتی اور دفاعی مفادات وابستہ ہیں اور سری لنکا میں حکومتی تبدیلی ان پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ صرف بیرونی ہی نہیں‘ اندرونی لحاظ سے بھی سری لنکا کے یہ انتخابات اور ان کے نتائج دلچسپ اور اہم مضمرات کے حامل ہیں۔ ان صدارتی انتخابات میں 52 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار‘ گھوٹا بھایا راجا پکسا ملک کے ایک سابق صدر مہندا راجا پکسا کے بھائی ہیں۔ مہندا راجا پکسا سری لنکا کے 2005ء سے 2015ء یعنی 10 سال تک صدر رہے۔ 2015ء کے صدارتی انتخابات میں اُنہیں سری لنکا فریڈم پارٹی کے امیدوار میتھریپال سری سینا کے ہاتھوں شکست ہو گئی تھی۔ ان کی شکست بھی بڑی غیر متوقع تھی کیونکہ مہندا راجا پکسا کے دور (2009ء) میں تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای کا قلع قمع کر کے ملک کی تین دہائیوں پر محیط خونریز خانہ جنگی پر قابو پا لیا گیا تھا۔ صدر مہندا راجا پکسا کو امید تھی کہ اس کارنامے کے عوض سری لنکا کے عوام اُنہیں مزید پانچ برس کے لئے صدر منتخب کر لیں گے‘ مگر تمام تر پیش گوئیوں کے برعکس اُن کے حریف سری لنکن فریڈم پارٹی کے میتھریپال سری سینا کامیاب ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سری سینا نے صدر مہندا راجا پکسا کے دور میں ہونے والی بد عنوانیوں اور اقربا نوازیوں کو ہدف تنقید بنا کر سابق صدر کے خلاف ایک زور دار انتخابی مہم چلائی تھی۔ سری لنکن عوام ایک نئے صدر کو چُن کر 30 برسوں کی خانہ جنگی سے قوم کو پہنچنے والی تکلیفوں اور زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے تھے‘ کیونکہ صدر مہندا اور اُن کے بھائی گھوٹا بھایا‘ جو کہ اب صدر منتخب ہوئے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے دورِ حکومت میں سیکرٹری دفاع کی حیثیت سے تمام فوجی کارروائیوں کو کنٹرول کر رہے تھے‘ پر تامل باغیوں اور شہریوں کے خلاف سخت گیر اقدامات کے الزامات تھے۔ اس کے علاوہ مہندا راجا پکسا پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ اقربا نوازی کو پروان چڑھا رہے ہیں‘ کیونکہ ان کا ایک بھائی سیکرٹری دفاع‘ دوسرا وزیر معاشی ترقی‘ تیسرا پارلیمنٹ کا سپیکر اور بیٹا گزشتہ دس سال سے پارلیمنٹ کا رکن چلا آ رہا تھا۔ جنوری 2015ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں میتھریپال سری سینا نے صدر مہندا راجا پکسا کے دور میں مبینہ طور پر ہونے والی بد عنوانیوں اور اقربا نوازی کو ہی نشانہ نہیں بنایا تھا‘ بلکہ انہوں نے عوام سے یہ وعدہ کر کے بھی ووٹ حاصل کئے تھے کہ وہ منتخب ہو کر ملک کو غیر یقینی صورتحال سے نجات دلائیں گے‘ حکومت کو بہتر جمہوری طریقے سے چلائیں گے اور صدر کے مقابلے میں پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کر کے ملک میں آمریت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ اگر صدر سری سینا نے 19ویں آئینی ترمیم کو منظور کروا کے صدر کے اختیارات میں کمی اور وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا ہے‘ مگر ملک کی اکثریتی سنہالی آبادی کی مخالفت کی وجہ سے وہ سری لنکا میں صدارتی نظام کو پارلیمانی نظام میں ڈھالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ صدر سری سینا‘ ملک کو ایک مستحکم سیاسی ماحول فراہم کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ اُنہیں ملک کی ایک اور بڑی سیاسی پارٹی ''یونائیٹڈ نیشنل پارٹی‘‘ کی بھی حمایت حاصل تھی‘ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے انیل وکرم سنگھے‘ صدر سری سینا کے ساتھ وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن تھے‘ لیکن ایک طویل خانہ جنگی کی بدولت سری لنکا میں بدھ مت کی پیروکار اکثریتی سنہالی (75 فیصد) آبادی اور ہندو دھرم کو ماننے والی تامل کمیونٹی کے درمیان مخاصمت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ مکمل قومی مصالحت کی منزل تک پہنچنے میں بہت وقت درکار ہو گا۔
سری لنکا کی سیاست میں ان دو بڑے لسانی گروہوں کے درمیان چپقلش اور بد گمانی کا بہت بڑا کردار ہے‘ لیکن اس سال اپریل میں ایک انتہا پسند تنظیم کی دہشت گردی کی کارروائی نے سری لنکا کی پیچیدہ سیاست میں ایک اور عنصر شامل کر دیا۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں مقامی عیسائی آبادی سے تعلق والے 250 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے اس وقوعے نے سری لنکا کو ہلا کر رکھ دیا‘ کیونکہ ملک ایک طویل خانہ جنگی کے اثرات سے ابھی مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکا تھا‘ اس واقعے نے سری لنکا میں 16 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج پر گہرا اثر ڈالا ہے‘ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ صدر مہندا راجا پکسا کے بھائی گھوٹا بھایا راجا پکسا کی کامیابی سری لنکا کی اکثریتی سنہالی آبادی کے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات کا نتیجہ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
مگر دوسری طرف یہ خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ گھوٹا بھایا کی کامیابی سے ملک میں مسلمانوں اور تامل اقلیتوں‘ جو پہلے ہی خوف زدہ ہیں‘ کے خلاف نئے تادیبی اقدامات کا آغاز ہو جائے گا‘ کیونکہ تامل باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے دوران میں گھوٹا بھایا کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ آنے کے بعد ایک اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدر گھوٹا بھایا سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی اقتدار کو اپنے خاندان تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ خدشہ ابھی سے پورا ہونا شروع ہو گیا ہے کیونکہ صدر گھوٹا بھایا نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اپنے بھائی اور سابق صدر مہندا راجا پکسا کو وزیر اعظم مقرر کر کے ان سے حلف بھی لے لیا ہے‘ حالانکہ ابھی پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں‘ مگر سری لنکا کا آئین صدر کو وزیر اعظم کے تقرر کا اختیار دیتا ہے‘ جس کے لیے بعد میں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اپنے خاندان میں حکومتی عہدے تقسیم کرنا جنوبی ایشیا کے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ سری لنکا کے علاوہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور پاکستان میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے‘ مگر صدر مہندا اور اب ان کے بھائی گھوٹا بھایا راجا پکسا کے دور میں جو ہو رہا ہے اور ہونے جا رہا ہے‘ اس کی شاید پہلے کوئی مثال نہیں ملتی؛ تاہم صدر سری سینا کی بجائے صدر گھوٹا بھایا کا سری لنکا کا صدر منتخب ہونے پر پاکستان اور چین خوش ہیں کہ صدر مہندا کے زمانے میں ان دونوں ملکوں کے سری لنکا کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے‘ لیکن صدر میتھریپال کا بھارت کی طرف جھکاؤ زیادہ تھا۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم مودی نے گزشتہ پانچ چھ برسوں میں سری لنکا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی جو کوششیں کی تھیں‘ اُن پر پانی پھر جانے کا کافی امکان موجود ہے۔