گزشتہ دنوں جب دو مغوی غیر ملکی پروفیسروں کی رہائی کے بدلے افغان طالبان کے تین اہم رہنماؤں کی رہائی عمل میں آئی تو اندازہ ہو گیا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کی جن کوششوں کو تین ماہ قبل اچانک ترک کر دیا گیا تھا‘ انہیں دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ اس بات کی تائید حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ افغانستان اور اس موقعہ پر ان کی طرف سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے آغاز کے اعلان سے ہوتی ہے۔ اگرچہ افغان طالبان نے امریکی صدر کے اس اعلان کی تصدیق نہیں کی بلکہ کہا ہے کہ بات چیت کے باقاعدہ آغاز کی اطلاعات قبل از وقت ہیں ‘تاہم انہوں نے اس کی تردید نہیں کی اور نہ ہی مذاکرات کے دوبارہ آغاز کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان باقاعدہ بات چیت کا فی الواقع وجود نہ ہونے کے باوجود‘ دونوں طرف سے اس مقصد کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ خود صدر ٹرمپ نے بھی اس طرف واضح اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان اس سلسلے ایک کڑی تھا۔ مسٹر خلیل زاد پاکستان آنے سے قبل چین کا دورہ کر چکے تھے اور وہاں بھی انہوں نے معطل شدہ افغان امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی بات چیت کی تھی۔ پاکستان میں انہوںنے پانچ رکنی وفد کے ساتھ دورہ کیا اور اس دورے کے دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ زلمے خلیل زاد کے دورے کے ایک روز بعد افغان طالبان کے ایک سینئر رہنما ملا عبدالغنی برادر نے بھی ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔پاکستان کی طرف سے طالبان کو باقاعدہ پروٹوکول دیا گیا تھا اور انہوں نے بھی پاکستان کی اعلیٰ سول اور ملٹری قیادت سے افغان امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر بات چیت کی تھی۔
اگرچہ طالبان نے امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان مذاکرات‘ جو کہ ایک معاہدے تک پہنچ چکے تھے‘ کی منسوخی پر سخت ناراضی اور مایوسی کا اظہار کیا تھا ‘ تاہم انہوں نے مذاکرات سے واک آؤٹ کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں۔ یہاں تک کہ مذاکرات کے دوبارہ اجرا کے حق میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود نے پاکستان کے علاوہ چین‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا بھی دورہ کیا ۔ اس لیے صدر ٹرمپ کی طرف سے جاری ہونے والا اعلان غیر متوقع یا حیران کن نہیں‘ کیونکہ 8ستمبر کو جب صدر ٹرمپ نے ان مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا ‘ اس وقت بھی مبصرین کی یہ رائے تھی کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا ۔
اب جبکہ مذاکرات کے سلسلے کی بحالی اور ان کے باقاعدہ آغاز پر فریقین آمادہ نظر آ رہے ہیں تو کئی نئے سوال اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا‘ جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا؟ صدر ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات کی منسوخی کے اعلان سے صرف ایک ہفتہ قبل‘ زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں یہ نوید سنائی تھی کہ ''ہم معاہدے کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ تمام اہم امور پر اتفاق ہو چکا ہے اور افغان عوام جلد ایک پرامن اور متحد ملک کے شہریوں کی حیثیت سے باعزت زندگی گزارنا شروع کر دیں گے‘‘۔طالبان کا بھی موقف یہی ہے کہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آخری یعنی 9ویں راؤنڈ کے نتیجے میں تمام امور طے ہو گئے تھے۔ اور فریقین کے درمیان معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق ہو چکا تھا‘ صرف دستخط ہونا باقی رہ گیا تھا۔ طالبان نے اپنے مقامی کمانڈروں کو تو فتح کا جشن منانے کیلئے بھی تیار رہنے کا اشارہ دے دیا تھا۔ اس لیے اگر امن مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع ہوتا ہے تو طالبان کی طرف سے اصرار کیا جائے گا کہ دوحہ راؤنڈ میں امریکہ نے جن امور پر طالبان کی شرائط تسلیم کی تھیں اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان پر بھی طالبان نے اپنے ردعمل میںواضح کیا ہے کہ مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ وہیں سے شروع کیا جائے گا‘ جہاں یہ منقطع ہوئے تھے۔
دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان 9ویں راؤنڈ کے طویل مذاکرات میں جن امور پر سمجھوتا ہوا تھا‘ ان کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ انخلا کے دوران امریکی اور نیٹو افواج پر حملے نہیں کئے جائیں گے‘ لیکن صدر اشرف غنی کی حکومت کی فوج اور پولیس پر حملے جاری رہیں گے۔ طالبان نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا‘ مگر انہوں نے القاعدہ سے باقاعدہ تعلق ختم کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔ طالبان نے افغانستان میں جنگ بندی کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا تھا اور امریکیوں سے یہ بھی منوا لیا تھا کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ کی صورت میں افغان فورس کو فضائی یا دیگر امداد فراہم نہیں کریں گے۔ افغان طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے بھی انکار کر دیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی دیگر سیاسی پارٹیوں یا گروپوں سے مذاکرات کریں گے۔ ان شرائط کی بنیاد پر طے پا جانے والے معاہدے کو اگرچہ صدر ٹرمپ نے تسلیم کر لیا تھا‘ مگر امریکہ کے محکمہ دفاع اور خارجہ کو اس پر سخت تحفظات تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح افغانستان سے امریکی افواج کے کلیتاً انخلا پر امریکی محکمہ دفاع خوش نہیں تھا۔ امریکی انتظامیہ کے ان دونوں اہم شعبوں نے یکم ستمبر 2019ء کو طے پا نے والے اس معاہدے کو یک طرفہ اور امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ جہاں تک افغان حکومت کا تعلق تھا‘ اس کے معاہدے پر تحفظات امریکیوں سے بھی زیادہ شدید تھے۔ صدر غنی کی حکومت افغان طالبان سے مذاکرات کی تو حامی تھی مگر امریکہ طالبان مذاکرات کے عمل سے افغان حکومت کو باہر رکھنے پر صدر غنی بہت ناراض تھے۔
ان حالات میں اگر مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے تو طالبان کو متعدد قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مثلاً امریکہ کی طرف سے اصرار کیا جائے گا کہ فوجی انخلا کے بعد بھی امریکی فوج کی کچھ تعداد کو افغانستان میں موجود رہنے کی رعایت دی جائے‘ تاکہ وہ ملک کو ممکنہ انارکی اور سول وارسے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے مطالبے کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ طالبان‘ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کو متعدد بار مسترد کر چکے ہیں‘ لیکن اب ان کے لیے اپنے پرانے مؤقف کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا‘ کیونکہ یہ مطالبہ صرف افغان حکومت اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے ہی پیش نہیں کیا جا رہا‘ بلکہ روس اور چین کے علاوہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں‘ شد ت سے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ بیشتر بیجنگ میں امریکہ‘ روس‘ چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا جو اجلاس ہوا تھااس میں اس مطالبے کو سختی سے دہرایا گیا تھا کہ افغان امن مذاکرات کے عمل سے افغان حکومت کو بھی شریک کیا جائے۔
افغانستان میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی جنگ کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔ لڑائی کے نئے سیزن‘ یعنی آئندہ موسم گرما تک افغانستان میں لڑائی کی شدت کم رہے گی۔ امید ہے کہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فریقین مذاکرات اور ان کی کامیابی پر زیادہ توجہ دیں گے‘ لیکن مذاکرات کا یہ عمل آسان نہیں ہوگا اور اس کی کامیابی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ تاہم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کر کے خاص طور پر افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر کے اس عمل کو آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔