"DRA" (space) message & send to 7575

سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال

پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو سوا سال سے زائد عرصہ ہونے کو ہے مگر سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضا بدستور قائم ہے۔ حکومتی تبدیلی کی افواہیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ حزبِ مخالف کے دعوے اور حکومت کی تردیدیں اپنی جگہ‘ صورتحال مگر یہ ہے کہ ملک میں کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے‘ اس لیے کہ سیاست کے کھلاڑی پینترا بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ مثلاً 26 نومبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام سیاسی پارٹیوں نے ملک میں متفقہ طور پر نئے انتخابات کے مطالبے کے حق میں مؤقف اختیار کیا تھا اور ان ہائوس تبدیلی کی مخالفت کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے تو اس ضمن میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پارٹی کسی قسم کی ان ہائوس تبدیلی پر اکتفا نہیں کرے گی‘ کیونکہ ان کے بقول موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ لیکن پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف نے لندن میں یہ بیان دے کر کہ 'حکومت میں ان ہائوس تبدیلی نہ صرف ان کی پارٹی کو قابل قبول ہے بلکہ اس کا مطالبہ بھی کرتی ہے‘ ملک میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ 
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدم تعاون بلکہ محاذ آرائی کی وجہ سے اس رجحان پر قابو پانا مشکل ہے۔ اس کے لیے ایسے اقدامات لازمی ہو گئے ہیں جن سے سیاسی کشیدگی میں کمی آئے تاکہ وہ غیر یقینی صورتحال ختم ہو‘ جس کے باعث عوام مضطرب ہیں اور اس طرح پاکستان پر بین الاقوامی حلقوں کا اعتماد بھی قائم ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو‘ جو ایک مقدمے میں سزا بھگت رہے ہیں‘ طبی بنیادوں پر ملک سے باہر جانے کی اجازت اس سلسلے میں پہلا قدم ہے۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو کسی دبائو کے تحت اس پر راضی ہونا پڑا ہے۔ اپوزیشن خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ ان ہائوس تبدیلی کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے یہ ایک اچھا موقعہ ہے کیونکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی ناکامی سے ثابت ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت کو کسی ایجی ٹیشن سے گرایا نہیں جا سکتا۔ جہاں تک نئے انتخابات کے مطالبے کا تعلق ہے‘ صرف پندرہ ماہ قبل منتخب ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اراکین کو اس پر آمادہ کرنا مشکل ہے‘ حالانکہ اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے نئے انتخابات کی حمایت کی تھی‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مخالفت صرف اقتدار کے ایوانوں میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی بھی اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انتخابات ایک مہنگا سودا ہے‘ اور لاکھوں نہیںکروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندے اتنی جلدی اپنی نشستیں چھوڑ کر عوام کے سامنے جانے کو تیار نہیں۔ ایک اور لحاظ سے ان ہائوس تبدیلی کے آپشن کا زیادہ امکان نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت قومی اسمبلی میں ایک معمولی اکثریت کی بنیاد پر برسرِ اقتدار آئی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اگرچہ واحد بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی‘ مگر وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور حکومت بنانے کیلئے اسے دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کا سہارا لینا پڑا۔ ان پارٹیوں میں ایم کیو ایم‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا نظر آ رہا تھا کہ حکومت کی یہ اتحادی پارٹیاں بھی پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے مسئلے پر مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنمائوں چودھری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے بیانات سے ظاہر ہوتا تھا کہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات تھیں کہ (ق) اور (ن) لیگ کے درمیان ''غیر سیاسی‘‘ رابطے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں طرف سے میڈیا کے ذریعے ان روابط کی تصدیق بھی کر دی گئی تھی۔ حکمران جماعت کی دیگر دو جماعتیں بھی مضطرب دکھائی دے رہی تھیں‘ ان میں سے ایک‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل نے حکومت کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے مخلوط حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ اپنی تقریروں اور عمل کے ذریعے بلوچ لیڈر حکومت کے اتحادی کی بجائے اپوزیشن کے ساتھی زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی تو نہ دی لیکن یکم دسمبر کو کراچی میں پی ٹی آئی کے ایک وفد‘ جس کی قیادت پارٹی کے مرکزی رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود کر رہے تھے‘ کے ساتھ ملاقات کے دوران ایم کیو ایم (پاکستان) کی مرکزی قیادت نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا تھا؛ تاہم انہوں نے حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی شکایت ضرور کی تھی۔ ان وعدوں میں کراچی‘ حیدر آباد‘ ترقیاتی پیکیج کے تحت مطلوبہ رقم کی عدم فراہمی بھی شامل تھی۔ 5 دسمبر کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں بھی ایم کیو ایم کے ایک وفد نے حکومت کی طرف سے کراچی اور حیدر آباد کو در پیش مسائل پر کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنما اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کی طرف سے مخلوط حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم اور بی این پی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں کے بیانات میں حکومت سے ناراضگی کا عنصر زیادہ نمایاں تھا۔
حال ہی میں بلوچستان میں چار خواتین کے اغوا اور ان پر مبینہ تشدد کے واقعہ نے حکومت اور بی این پی کے درمیان ایک اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ بی این پی کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی‘ لیکن اگر اس جانب کوئی پیش قدمی نہ ہوئی تو بی این پی کی طرف سے سخت رد عمل آ سکتا ہے‘ جس کی ایک شکل اپنے تین ایم این اے کے ساتھ مرکزی حکومت سے علیحدگی بھی ہو سکتی ہے۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بظاہر بڑھتے ہوئے فاصلوں کے پیش نظر مسلم لیگ ن نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لا کر انتخابات کی بجائے ان ہائوس تبدیلی کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔ لندن میں (ن) لیگ کے رہنمائوں میں جو مشاورتی اجلاس ہوا ہے‘ اُس میں بھی اس تبدیلی کی تصدیق کر دی گئی ہے اور خواجہ آصف نے ایک بیان میں اس کا اعادہ بھی کر دیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن یعنی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کے الزامات پر مبنی ایک جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ شہباز شریف کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کی جو تحریک شروع کی گئی ہے‘ (ن) لیگ اُسے بھی حکومت اور احتساب ادارے کا گٹھ جوڑ قرار دے رہی ہے۔ وفاقی حکومت‘ سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر بھی نا اہلی اور بد عنوانی کے الزامات عائد کر کے بلاول بھٹو کی طرف سے وزیر اعظم اور ان کی حکومت پر تابڑ توڑ حملوں کا جواب دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیشتر مبصرین کی نظر میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مشکل میں ہے اور اس کی طرف سے اپوزیشن کے خلاف اچانک جارحانہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ دراصل اس کی بوکھلاہٹ ظاہر کرتا ہے‘ کیونکہ ملک جن حالات سے اس وقت دوچار ہے‘ حکومت اور ملک دونوں کو سیاسی پارٹیوں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔ اس طرح قبل از وقت انتخابات ہوں یا ان ہائوس تبدیلی‘ ان کا تا حال کوئی اندیشہ نہیں‘ لیکن نون لیگ‘ جس کے حامیوں اور رہنمائوں کی کثیر تعداد ہمیشہ سے کسی اشارے کی منتظر رہی ہے‘ کو یقین ہے کہ اس کا وقت آ پہنچا ہے‘ اور اس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ پندرہ ماہ میں حکومت کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے‘ مستقبل قریب میں اُس کی بہتری کے کوئی آثار نہیں۔ حکومت جس استحکام کا دعویٰ کر رہی ہے‘ وہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے تحت ملنے والی امداد کی بدولت نظر آ رہا ہے۔ خارجہ تعلقات کے محاذ پر بھی جمود ہے۔ حالات میں تبدیلی کے لیے حکومت میں تبدیلی کو ناگزیر سمجھا جا رہا ہے‘ لیکن ایسا فی الواقع ہوتا ہے یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اس بارے میں واضح طور پر یقیناً کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں