تین ماہ کے ڈیڈ لاک کے بعد افغانستان کے مسئلے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں ایک دفعہ پھر تشویشناک رکاوٹ کھڑی ہو گئی ہے اور امریکہ نے اپنے مدمقابل فریق کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ کچھ عرصے کے لیے روک دیا ہے۔ اس دفعہ امریکی اقدام کی وجہ افغانستان میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اور ہوائی اڈے بگرام پر طالبان کاحملہ ہے۔ اس حملے میں دو افعان شہری ہلاک اور ستر کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ماہ ستمبر میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اچانک معطل کر کے افغانستان میں امن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا تھا ‘ اس کی وجہ کابل میں طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت تھی۔پہلے کی طرح اس دفعہ بھی ا مریکہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مذاکرات کو روک دیا ہے اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے طالبان پر امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کی برہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اُسے امید تھی کہ طالبان افغانستان میںجنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں گے‘ مگر طالبان نے افغانستان میں امریکہ کی فوجی طاقت کے سب سے بڑے مرکز پر حملہ کردیا۔
اگرچہ مذاکرات کے سلسلے کو ایک دفعہ پھر شروع کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے اور اس مقصد کے لیے گزشتہ دنوں زلمے خلیل زاد اپنے وفد کے ہمراہ قطر سے اسلام آبادپہنچے تھے ‘جہاں انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ ان کوششوں کی کامیابی کا بھی کافی امکان ہے‘ کیونکہ دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکی وفد سے جو حال ہی میں ملاقات کی ہے اسے مثبت بتایا ہے‘ تاہم افغانستان کے مسئلے پر امریکہ اور طالبان کے درمیان کسی جلد اور حتمی معاہدے کی امید نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ فریقین کے درمیان چند مسائل پر ابھی تک شدید اختلافات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سمجھوتے کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی ہے۔اس مسئلے پر طالبان کا شروع سے اور اب بھی یہی مؤقف ہے کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں‘ جن میں نیٹو ممالک کے فوجی دستوں کے علاوہ امریکی افواج بھی شامل ہیں‘کو مکمل طورپر ملک خالی کرنا ہوگا‘ لیکن امریکہ سمجھوتے اور قیامِ امن کے بعد بھی افغانستان میں اپنے کچھ فوجی دستے رکھنا چاہتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 13000 ہے‘ ان میں سے 5000 انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں‘ باقی دیگر نیٹو ممالک کے فوجی دستوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی افواج کی ٹریننگ اور لڑائی کے دوران مدد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ دہشت گرد افغانستان کو امریکہ کے خلاف 9/11 جیسی کارروائی کیلئے اڈے کے طور پر استعمال نہ کر سکیں‘ ضروری ہے کہ امن سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد بھی افغانستان میں امریکہ کے کچھ فوجی دستے موجود رہیں‘ تاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ اس مؤقف کا اظہار حال ہی میں امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے روبرووزیر دفاع مارک ایسپر اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ملے نے اپنے بیانات کے ذریعے کیاتھا۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑی حد تک کم کرنے کیلئے تیار ہے‘ تاکہ افغانستان میں مقیم فوجی دستوں کو دنیا کے دیگر حصوں میں روس اور چین کی طرف سے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کیلے تعینات کیا جا سکے‘ لیکن کچھ امریکی فوجیوں کو افغانستان میں اس وقت تک موجود رہنا چاہیے تا وقتکہ افغانستان میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوجاتا۔
جنرل ملے نے بھی اس سے ملتے جلتے بیان میں افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کانگریس کو بتایا کہ کم تعداد میں ہی سہی‘ امریکہ کو افغانستان میں اپنے فوجی دستوں کو سمجھوتے کے بعد بھی مقیم رکھنا چاہیے۔ ان دو سینئر امریکی فوجی افسران کے بیانات کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا پر راضی نہیں‘ لیکن طالبان کو امریکہ کا یہ مؤقف قبول نہیں اور وہ اپنی شرط کو تسلیم کرائے بغیر جنگ بندی پر آمادہ نہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے علاوہ تین اور مسائل بھی ہیں۔ مذاکرات کے گزشتہ ادوار میں فریقین میں عمومی مفاہمت ہو گئی تھی مگر جزیات طے کرنا باقی تھیں‘ان میں فوری جنگ بندی‘ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات اور القاعدہ سے طالبان کی مکمل اور واضح علیحدگی کا اعلان شامل ہے۔ گزشتہ سال طویل مذاکرات میں طالبان جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے تھے‘ مگریہ جنگ بندی صرف طالبان اور امریکی افواج کے درمیان قرار پائی تھی‘ جہاں تک افغانستان کی سرکاریا افواج کا تعلق ہے‘ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ ان کیخلاف جنگ جاری رہے گی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات کے گزشتہ رائونڈز میں امریکیوں نے یہ شرط تسلیم کر لی تھی۔ طالبان نے امریکی اصرار اور دیگر ممالک مثلاً پاکستان‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ روس اور چین کی طرف سے دبائو کے باوجود افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ وہ افغان حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ بالواسطہ بات چیت پر راضی ہو گئے تھے‘ مگر صدر غنی کی طرف سے ردعمل کے بعد امریکہ کی طرف سے ایک دفعہ پھر طالبان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ملک میں قیام امن کیلئے سمجھوتے کی تفصیلات طے کریں تاکہ غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان ایک دفعہ پھر خونریز خانہ جنگی کا شکارنہ ہو جائے۔
اگرچہ طالبان ابھی تک اپنے پرانے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ‘لیکن افغان سول سوسائٹی کی جانب سے جس طرح امن کی شدید خواہش اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں جاری جنگ پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے پیش نظر ممکن ہے کہ طالبان اپنے مؤقف پر نظرثانی پر آمادہ ہو جائیں۔ اس طرح طالبان افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف ہیں اور ان کے خلاف کارروائیوں میں امریکی اور افغان فوجوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں لیکن القاعدہ کے ساتھ قطع تعلق کا واضح اور دو ٹوک اعلان کرنے پر راضی نہیں۔ طالبان نے اس حد تک رضامندی ظاہر کر دی ہے کہ وہ القاعدہ کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ مگر وہ اس سے مکمل لاتعلقی یا مذمت کرنے پر تیار نہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر افغان مذاکرات اگر دوبارہ شروع ہو بھی جائیں‘ ان کی کامیابی کی جلد توقع نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ طالبان نے اپنے دیرینہ مؤقف میں لچک کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں دیا‘ بلکہ وہ دوبارہ مذاکرات پر اس شرط کے تحت راضی ہوئے ہیں کہ انہیں وہیں سے شروع کیا جائے جہاں سے گزشتہ ستمبر ان کا سلسلہ ٹوٹا تھا۔ مگر افغانستان کے اندر اور باہرا ور خود امریکہ میں بھی حالات جس رفتار سے بدل رہے ہیں ان کے پیش نظر طالبان کو اپنے سخت مؤقف میں نرمی دکھا کر افغانستان میں قیامِ امن کی راہ ہموار کرنا پڑے گی۔افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں افغان جنگ کے جاری رہنے اور امن کی طرف پیش قدمی کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ روس اور چین نے بھی افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ ادھرایک رپورٹ کے بعد کانگرس کے حلقوں میں افغان جنگ اور اس کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اور حکمت عملی کو زیر بحث لانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ عالمی رائے عامہ اس وقت پوری طرح افغانستان میں جنگ بندی کے حق میں ہموار ہو چکی ہے‘اس لیے افغانستان کی اس طویل جنگ ‘جس میں شہریوں کی ہلاکت میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے‘کا خاتمہ ناگزیر ہے‘ لیکن یہ مقصد کب حاصل ہوگا‘ اس بارے ابھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔