ایران اور امریکہ کے باہمی تعلقات تو 1979ء سے ہی کشیدہ ہیں جب امریکہ کے حامی شاہ ایران کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا گیا تھا ۔ اس کشیدگی میں ان چالیس برسوں کے دوران متعدد بار اتار چڑھائو کی کیفیت پیدا ہوتی رہی‘ مگر سالِ نو کے آغاز پر بغداد کے نواحی علاقے میں امریکی حملے میں ایران کے اہم ترین فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے ایسی خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی‘ کیونکہ ایران نے اس واقعے کو امریکہ کی طرف سے اپنے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ ایرانی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی ایران کی قومی سلامتی‘ اتحاد اور طاقت کا مظہر تھے اور امریکہ نے انہیں نشانہ بنا کر ایسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایران اپنے اس قومی نقصان پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور اس کا ضرور بدلہ لے گا۔ دوسری طرف امریکہ میں بھی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگرس کے ارکان نے بھی ایرانی جنرل کے قتل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ‘کیونکہ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ جنرل قاسم کو صدر ٹرمپ کے حکم پر نشانہ بنایا گیا ۔ڈیمو کریٹک پارٹی کے ارکان نے صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے یہ حکم دے کر امریکی آئین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ کانگرس کی اجازت کے بغیر امریکی صدر ملک کو جنگ میں نہیں دھکیل سکتا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ غیر ملکی سرزمین پر غیر ملکی جرنیل کو قتل کر اکے صدر ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
جنرل قاسم کے قتل پر صرف ایران میں ہی نہیں‘ پوری دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دیگر ممالک نے اس واقعہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے فریقین کو صبروتحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی اس واقعہ میں ملوث امریکہ کی مذمت کئے بغیر فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے احتیاط سے کام لیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا اور اس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ امریکی صدر ٹرمپ اور سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے جنرل قاسم کو 2003-2011 ء کے دوران عراق میں 600 امریکی سپاہیوں اور مشرق وسطیٰ میں لاکھوں افراد کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی جنرل مزید امریکیوں کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے اور انہیں اس منصوبے کو ناکام بنانے اور خطے میں امریکیوں کو تحفظ دینے کے لیے قتل کیا گیا ہے‘ لیکن امریکی کانگرس کے ڈیموکریٹک ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ اقدام کانگرس میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا ہے؛ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدرمنتخب ہونے کے بعد سے اب تک امریکہ اور ایران کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکہ نے متعدد اقدامات کے ذریعے ایران کو مشتعل کر کے اس پر حملہ کرنے کا موقع تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ایران کی تحمل اور برداشت پر مبنی پالیسی نے صدر ٹرمپ کو یہ موقعہ فراہم نہیں کیا۔ جنرل قاسم کا قتل دراصل امریکی صدر کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے اور ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی جارحانہ اور اشتعال انگیز پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے امریکہ نے چند دن پیشتر عراق میں امریکہ مخالف عوامی مظاہروں‘ خصوصاً بغداد میں 104ایکڑ رقبے پر محیط اپنے سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کا سہارا لیا ہے۔ امریکہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ان مظاہروں اور سفارت خانے پر حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ ان مظاہروں کے دوران امریکی پرچم جلایا گیا تھا اور سفارت خانے پر سکیورٹی سٹاف کے ٹھکانوں کو مسمار بھی کردیا گیا تھا۔ جنرل سلیمانی کو بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مظاہرین کی یلغار کے بعد نشانہ بنایا گیا۔
جہاں تک اس واقعہ کے نتائج کا تعلق ہے اس کا زیادہ تر انحصار ایران کے ردعمل پر ہے۔ اسلامی انقلاب سے اب تک ہر ایرانی حکومت کی خارجہ معاملات میں پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تہران نے ہمیشہ تحمل‘ ضبط اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے باوجود ایران نے اپنی ہمسائیگی میں واقع کسی ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ خود جارحیت کا شکار ہوا ہے۔ اس لیے ایران کی طرف سے کسی فوری کارروائی کا امکان نہیں۔ دوسرے‘ ایران اس وقت کسی بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت کمزور ہے۔ خلیج فارس اور اس کے اردگرد پانیوں میں موجود امریکہ کی بحری افواج اور جہازوںکو ایرانی میزائلوں سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ایران ایسا نہیں کرے گا کیونکہ امریکہ اس کا بہانہ بنا کر ایران پر بھرپور حملہ کر سکتا ہے‘ لیکن امریکہ نے ایران کے ایسے فوجی کمانڈر کو قتل کیا ہے جسے اپنے ملک میں ہیرو کی حیثیت حاصل تھی اس لیے یہ توقع کرنا محال ہے کہ ایران بالکل خاموش رہے گا۔ اپنے رد عمل کے لیے ایران کے پاس دو آپشن ہیں‘ ایک یہ کہ عراق میں جاری امریکہ مخالف احتجاجی مظاہروں کو تقویت دی جائے۔ اس کیلئے زمین بالکل ہموار ہے کیونکہ عراق میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اوریہ نفرت صرف شیعہ آبادی میں نہیں بلکہ سنی آبادی کے لوگ بھی عراق سے امریکہ کا مکمل انخلا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عراق اور امریکہ نے حال ہی میں داعش کے خلاف مشترکہ طور پر کامیاب جنگ لڑی ہے‘ مگر جنرل سلیمانی کے قتل سے یہ تعاون مخاصمت میں تبدیل ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ عراق‘ ایران کے بعد امریکہ مخالف رجحانات کا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھر رہا ہے اور تیزی سے امریکہ‘ ایران پراکسی جنگ کا اہم اکھاڑہ بنتا جا رہا ہے۔ عراق کی حکومت نے جنرل سلیمانی کے قتل کو عراق کی آزادی‘ خودمختاری اور علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ دوسرے آپشن کے طور پر ایران یورینیم کی افزودگی کے عمل کو تیز کر سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران یورینیم افزودگی کو 19.75فیصدکی سطح پر لے جانے کی کوشش کر سکتا ہے جو اسے ایٹمی طاقت بننے کے بہت قریب لے جائے گی۔ ایک اطلاع کے مطابق ایران ہتھیاروں کے خلاف معاہدے (این پی ٹی) سے بھی علیحدگی کا جائزہ لے رہا ہے۔
جنرل سلیمانی کے قتل کے مضمرات صرف ایران اور امریکہ کے مفادات تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے علاقائی اور عالمی اثرات بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان تصادم کی صورت میں اسرائیل‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات الگ تھلگ نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ تینوں ممالک ایران کے خلاف امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ اسی طرح پاکستان‘ ترکی اور افغانستان ایران کے قریبی ہمسایہ ممالک ہونے کی وجہ سے ایران‘ امریکہ جنگ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنرل سلیمانی کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتحال پاکستان کے لیے خصوصی طور پر ایک بڑا اور پیچیدہ چیلنج ہے کیونکہ سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ساتھ پاکستان کے نہایت قریبی اور اہم اقتصادی اور معاشی تعلقات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور افغانستان مین قیامِ امن کے بڑھتے ہوئے امکانات کے پیش نظر یہ تعلقات اور بھی بہتر ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی طرف مالی امداد اور امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات پاکستان کی کمزور معیشت کے پیش نظر اسلام آباد کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے فوراً بعد امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے ساتھ فون پر بات کی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے بھی حال ہی میں پاکستان کے دورے کئے ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ امریکہ اور خطے میں ایران مخالف اس کے عرب اتحادی تازہ صورتحال میں پاکستان سے کس قسم کی مدد چاہتے ہیں‘ مگر جیسا کہ وزارتِ خارجہ کی بیان سے ظاہر ہے پاکستان ایک متوازن اور محتاط رویہ اختیار کرے گا۔