پارلیمانی سیاست میں مخلوط حکومتوں کا قیام کوئی انہونی یا غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان ‘ بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر متعدد ممالک مثلاً بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا میں اس وقت مخلوط حکومتیں قائم ہیں۔ مخلوط حکومتوں کی تشکیل کی دو صورتیں ہوتی ہیں‘ ایک یہ کہ انتخابات سے پہلے ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد میںشامل ہو کر‘ انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور کامیابی کی صورت میں اس انتخابی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم کی جاتی ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی ایسی ہی حکومت ہے ‘جو بی جے پی اور دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) کے جھنڈے تلے حکومت کر رہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب انتخابات میں کوئی سیاسی پارٹی قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو انفرادی طور پر سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہونے والی پارٹی حکومت سازی کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے نمائندوں یا آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے ساتھ سودا بازی کر کے مخلوط حکومت بناتی ہے۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت اس کی ایک مثال ہے۔ پاکستان اور بھارت میں جب سے قومی کی بجائے علاقائی یا گروہی مفادات نے سیاست پر غلبہ حاصل کیا ہے‘ مخلوط حکومتوں کا وجود ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ لوک سبھا کی نشستیں جیتی تھیں اور اس طرح اکیلے ہی مرکز میں حکومت بنانے کی اہل تھی‘ مگر نریندر مودی کی حکومت مخلوط ہے اور اس نے ہندوتوا کی حامی دیگر انتہا پسند جماعتوں کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر رکھا ہے۔
پاکستان میں بھی اس وقت مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں قائم ہیں‘ مگر اس کی وجوہات بھارت سے مختلف ہیں۔ 2018ء کے قومی انتخابات میں پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جنرل نشستیں حاصل کی تھیں‘مگر ان کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ پی ٹی آئی اکیلے مرکز میں حکومت بنا سکتی‘اس لیے اسے حکومت سازی کے لیے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ارکان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرنا پڑا۔ جن سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اُن میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)‘ پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ سندھ کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) اور بلوچستان سے بی این پی شامل ہیں۔ مگر ان سیاسی پارٹیوں کی طرف سے پی ٹی آئی کی حمایت غیر مشروط نہیں تھی۔ ان میں سے ہر سیاسی پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ الگ الگ اپنے مطالبات کی بنیاد پر معاہدات کیے‘ جن پر پی ٹی آئی نے حکومت کی تشکیل کے بعد عمل درآمد کا وعدہ کیا‘ مگر پی ٹی آئی کی یہ مخلوط حکومت مستحکم ثابت نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ ویسے تو مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے رویے پر عدم اطمینان اور شکایت کا اظہار کر چکے ہیں‘ لیکن مخلوط حکومت میں شامل دو سیاسی جماعتوں یعنی ایم کیو ایم اور بی این پی کا اس ضمن میں شکوہ زیادہ تواتر اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ سامنے آتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی بھی دے چکی ہیں‘ لیکن ہر بار حکومت کے منانے اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کروانے کی یقین دہانیوں کے بعد صورتحال دوبارہ معمول پر آ جاتی رہی ہے۔ تاہم اس دفعہ مسئلہ سنگین نظر آ رہا ہے‘ کیونکہ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاق میں کابینہ کے رکن ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان کو اپنا استعفیٰ واپس لینے پر راضی کرنے کے لیے اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں وہ ناکام نظر آ رہی ہیں؛ اگرچہ خالد مقبول صدیقی نے اپنی جماعت کی طرف سے وفاقی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ مگر کراچی میں ان کی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے ماحول کو دیکھ کر خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ان کی تسلی کے مطابق اقدامات نہ کیے تو بات وزارت سے علیحدگی سے آگے بھی جا سکتی ہے۔ غالباً اسی خطرے کے باعث وزیراعظم کو اپنی پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بلانا پڑا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے غیر معمولی سرگرمیوں اور بھاگ دوڑ کی ایک بڑی وجہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایم کیو ایم اور بی این پی کے علاوہ باقی دو پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ق) اور پیر پگاڑا کی قیادت میں قائم ہونے والی جی ڈی اے نے بھی حکومت کے سامنے اپنی شکایات کے دفاتر کھول دیے ہیں۔ اگرچہ ان سب کی طرف سے حکومت سے علیحدگی کا ابھی کوئی امکان نہیں‘ مگر ایک ایسے وقت میں جب کہ معیشت کی خراب صورت ِ حال‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خراب گورننس کی وجہ سے و فاقی حکومت سخت دبائو میں ہے‘ اتحادی جماعتوں کی طرف سے ناراضگی کا اظہار اور علیحدگی کی دھمکیاں وفاقی حکومت کو مزید مشکلات سے دو چار کر سکتی ہیں۔
حکومت کی ان اتحادی جماعتوں کی طرف سے چونکہ علیحدہ علیحدہ مطالبات کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے حکومت بھی اس تازہ بحران سے نمٹنے کیلئے الگ الگ حکمت عملی استعمال کرے گی۔ مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے کی نمایاں شکایات یہ ہیں کہ وفاقی حکومت اہم فیصلے کرتے وقت ان سے مشورہ نہیں کرتی مثلاً مسلم لیگ (ق) کو گلہ ہے کہ پنجاب میں حکمران جماعت کی واحد اتحادی جماعت ہونے کے باوجود صوبے میں اہم اقدامات کرتے وقت وفاقی حکومت اس سے مشورہ نہیں کرتی۔ ان اقدامات میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم‘ اہم عہدوں پر تعیناتی اور سرکاری افسران خصوصی طور پر پولیس اہلکاروں کی پوسٹنگ شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ق) نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران متعدد بار اپنے تحفظات حکومت کے سامنے رکھے ہیں‘مگر اس دفعہ ان تحفظات کو زیادہ شدت کے ساتھ پیش کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کو خدشہ ہے کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی بھی سیاسی ساکھ گررہی ہے۔ جی ڈی اے کو شکوہ ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اقدامات سے ہچکچا رہی ہے؛ حالانکہ اس کے بقول‘ کرپشن اور بیڈ گورننس کی وجہ سے سندھ کا برُا حال ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جی ڈی اے کے ایک وفد کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات کر کے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر ایم کیو ایم کی طرح جی ڈی اے بھی ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں اور مرکزی حکومت پر بدستور دبائو ڈال رہا ہے۔ جہاں تک بی این پی کا تعلق ہے‘ ایم کیو ایم کی طرح اس کے ارکان قومی اسمبلی حکومت میں شامل نہیں‘مگر ابھی تک حکومت کے ساتھی ہیں اور اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی ان تمام اتحادی پارٹیوںکو کوئی ایسا متبادل پلیٹ فارم نظر نہیں آتا جہاں سے وہ اپنے مطالبات منوا سکیں۔جس قسم کے مطالبات کی بنیاد پر ایم کیو ایم اور بی این پی نے پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت کے معاہدات کئے تھے‘ انہیں پورا کرنے کیلئے جو وسائل درکار ہیں وہ صرف حکومت کے پاس ہیں۔ ان تمام پارٹیوں اور دھڑوں کو معلوم ہے کہ اپوزیشن یا کوئی اور ادارہ ان کے تحفظات دور نہیں کر سکتا اور نہ ہی مطالبات پورے کئے جا سکتے ہیں اس لیے فوری طور پر بلکہ مستقبل قریب میں بھی ان پارٹیوں کی طرف سے با آواز بلند اپنے مطالبات کے حق میں بولنے کے باوجود مرکز میں مخلوط حکومت ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں‘ البتہ حکومت قومی مسائل کو حل کرنے میں اگر ناکام رہتی ہے اور نئے انتخابات ضروری ہو جاتے ہیں تو ان کے پیش نظر اتحادی پارٹیاں الگ ہونے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگائیں گی۔