افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کا معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے‘ حالانکہ ابھی چند روز ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شریکِ گفتگو امریکہ اور طالبان نے بڑے وثوق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ فریقین کے مابین حتمی سمجھوتے پر جو چند اختلافات موجود تھے‘ وہ دور ہو گئے ہیں اور ماہ رواں کے اختتام سے پہلے اس پر دستخط کر دئیے جائیں گے۔ مگر افغان حکومت نے اس سمجھوتے کی شرائط کو مسترد کر دیا ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے ترجمان صادق صدیقی نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان سمجھوتے کی اس شرط کو مبہم اور افغان حکومت کے لئے ناقابل قبول قرار دیا ہے کہ سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد طالبان امریکہ کی فوجوں اور ٹھکانوں پر حملے نہیں کریں گے‘ مگر افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی نہیں کی جائے گی۔ افغان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ کسی قانون اور فوجی ضابطوں کے بغیر اس قسم کی پیشکش کی کوئی حیثیت نہیں‘ اگر افغان طالبان ملک میں امن چاہتے ہیں تو انہیں مکمل جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہئے۔ افغان حکومت کے اس اعلان پر ابھی تک امریکہ یا طالبان کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا؛ تاہم اغلب امکان ہے کہ افغان طالبان امریکہ پر زور دیں گے کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے اس اعلان کو نظر انداز کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرے تاکہ ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہو سکے۔ جہاں تک افغان حکومت کا تعلق ہے تو افغان طالبان اسے ملک کی جائز حکومت تسلیم نہیں کرتے‘ اس لئے ان کے ساتھ براہ راست بات چیت یا جنگ بندی پر آمادہ نہیں۔ گزشتہ سال دوحہ میں ڈھائی تین ماہ کے مسلسل مذاکرات کے بعد اگست میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین جو سمجھوتہ طے پایا تھا اس کی شرائط کے مطابق طالبان نے دوران انخلا صرف امریکہ کے ساتھ جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ افغان فوجوں اور عسکری ٹھکانوں پر ان کے حملے جاری رہیں گے۔ افغان طالبان کے دعووں کے مطابق امریکہ نے نہ صرف یہ شرط تسلیم کر لی تھی بلکہ اس بات کا بھی وعدہ کیا تھا کہ سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد وہ لڑائی میں اپنی فضائیہ کے ساتھ افغان افواج کی مدد کو نہیں آئے گا‘ لیکن صدر ٹرمپ کی طرف سے 8 ستمبر کو دوحہ مذاکرات کی اچانک معطلی کے سبب اس سمجھوتے پر دستخط نہیں ہو سکے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اس اقدام کی وجہ افغان طالبان کے حملوں میں امریکہ کے ایک فوجی کی ہلاکت کو قرار دیا تھا اور طالبان پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ ایک طرف امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہیں‘ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف امریکی اور عالمی میڈیا بلکہ خود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھی اس معاہدے کی شرائط پر سخت تنقید کی گئی اور اسے یک طرفہ قرار دیا گیا تھا‘ کیونکہ طالبان نے ملک میں جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت سے صاف انکار کر دیا تھا۔
ستمبر میں معطلی کے بعد امریکہ نے مذاکرات کی بحالی کی دوبارہ کوششیں شروع کر دیں۔ چونکہ طالبان بھی اس کے حق میں تھے‘ اس لئے یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ اس دوران جو دو باتیں کھل کر سامنے آئیں‘ ان میں سے ایک یہ تھی کہ ملک میں تشدد اور جنگ کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہئے کیونکہ طالبان کے حملوں میں شہری آبادی‘ جن میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی‘ اس ہولناک جنگ کا نشانہ بن رہی تھی۔ اس لئے نہ صرف افغان عوام اور سول سوسائٹی بلکہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی طالبان پر سخت دبائو تھا کہ وہ جنگ بندی پر اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ طالبان سمجھوتے پر دستخط ہونے سے قبل کسی قسم کی جنگ بندی پر تیار نہ تھے۔ وہ امریکیوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر راضی تھے‘ مگر افغان فوجوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے پر بضد تھے؛ تاہم ہر طرف سے دبائو کے پیش نظر انہیں اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا پڑی۔ طالبان ذرائع کے مطابق ان کے بعض کمانڈر افغان فورسز کے ساتھ جنگ بندی کی سخت مخالفت کر رہے تھے۔ انہیں آمادہ کرنے کے لئے طالبان کی سینئر قیادت کو طویل عرصے تک باہمی صلاح مشورے کا ایک سلسلہ جاری رکھنا پڑا۔ اسی طرح طالبان کی یہ ضد کہ وہ افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ براہ راست گفتگو نہیں کریں گے‘ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہدف تنقید بن رہی تھی۔
افغانستان میں امن کے لئے کوشاں ممالک‘ جن میں پاکستان‘ امریکہ‘ روس‘ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں‘ نہ صرف فوری جنگ بندی بلکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات پر زور دے رہے تھے۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل بالکل سادہ تھی‘ یہ کہ افغانستان میں جنگ تو طالبان اور افغان فورسز کے درمیان ہو رہی ہے۔ اگر امن کے لئے اس جنگ کا خاتمہ مقصود ہے تو یہ فریقین یعنی افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان رابطے اور بات چیت کے بغیر کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ چند دن پیشتر پاکستان میں مقیم روس کے سفیر نے بھی پاکستان ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس سے ملتے جلتے بیان میں کہا تھا کہ میدان جنگ میں ایک دوسرے سے برسر پیکار طالبان اور افغان فوجوں کے درمیان بات چیت کے بغیر افغانستان میں جنگ کیسے بند ہو سکتی ہے۔ روس اور چین کی طرف سے قیام امن اور جنگ بندی کے عمل میں افغان حکومت کی شمولیت پر اس لئے بھی زور دیا جا رہا ہے کہ انہیں اس بات کا خطرہ ہے کہ امریکہ افغان حکومت کو بائی پاس کرکے طالبان کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے‘ جس کی بعض شرائط امریکہ کے حق میں ہوں گی اور اسے افغانستان میں کچھ فوجیں مقیم رکھنے یا اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کا موقعہ مل جائے گا۔ روس اور چین میں جنوبی اور مغربی ایشیا کے بارے میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ امریکہ روس اور چین پر اپنا دبائو برقرار رکھنے کیلئے افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی چاہتا ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بارہا کہا جا چکا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے پر تو تیار ہے‘ مگر افغانستان سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔ محکمہ دفاع اور خصوصاً نئے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کانگریس کی ایک کمیٹی میں بریفنگ کے دوران کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرہ روس اور چین سے ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کو افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی برقرار رکھنا ہو گی۔ روس اور چین کو خدشہ ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل سے افغان حکومت کو باہر رکھ کر یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ کی مدد کرنے پر آمادہ ہیں۔ پاکستان تو شروع سے ہی کہہ رہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے مکمل طور پر کوچ نہیں کرنا چاہئے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کے ساتھ اپنی مخاصمت کے تناظر میں امریکہ کی افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں موجودگی کی حمایت کریں گے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ افغان حکومت کو نظر انداز کرکے طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر سمجھوتہ کرکے فوجیں نکال لیتا ہے تو کیا افغان فوجیں طالبان کی یلغار کے سامنے ٹھہر سکیں گی؟ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ خود امریکی ذرائع اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکی افواج کی امداد کے بغیر افغان حکومت ایک ہفتہ بھی نہیں ٹھہر سکتی؛ تاہم کچھ عرصہ پیشتر صدر اشرف غنی نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور ان کی حکومت کے حامی اتنے ہی پکے مسلمان اور بہادر پشتون ہیں جتنے طالبان۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اپنے مزاج کے مطابق افغان حکومت کو نظر انداز کرکے یک طرفہ طور پر فوجی انخلا کا معاہدہ کر لیا تاکہ انہیں صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل ہو سکے تو افغانستان کو پہلے سے زیادہ شدید جنگ اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔