کشمیر پر اپنے استبدادی قبضے کو مزید مستحکم کرنے کیلئے بھارت نے گزشتہ برس5 اگست کو جو یکطرفہ اقدامات کیے تھے ان کے بعد سے اب تک پاکستان کی بین الاقوامی سفارتی مہم کا تمام تر زور عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر انہیں ایسے عملی اقدامات کرنے پر آمادہ کرنا ہے‘ جن سے بھارت اپنے ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور ہو جائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے نافذ کردہ لاک ڈائون کو چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاکستان نے یہ سفارتی مہم پورے زوروشور سے چلائی اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں‘ مگر اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کشمیری عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی ان کوششوں کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان نے اپنی سفارتی مہم کے جو اہداف مقرر کئے تھے‘ وہ کس حد تک پورے ہوئے ہیں۔ اور پھر ان نتائج کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی اور سفارتی مہم کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اپنی اس سفارتی مہم کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سیاسی افق پر نمایاں طور پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ عالمی برادری کے ارکان کی بھاری تعداد مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارتی موقف سے پہلے ہی متفق نہیں تھی۔ 5 اگست کے بعد کشمیری عوام کے لئے دنیا کی ہمدردیوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے‘ بلکہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بھارت کے دعووں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس سے ان جابرانہ اقدامات کو ختم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینکس کی رپورٹیں اور مضامین اس کے گواہ ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پوری دنیا کو کشمیر کی وجہ سے پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی پر تشویش ہے اور اہم ممالک اس تشویش میں کمی لانے اور دونوں ممالک کے مابین اس دیرینہ مسئلے کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش اس کی ایک مثال ہے۔ امریکہ کے علاوہ روس‘ چین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے بھی اس قسم کی پیشکش کی جا چکی ہے‘ لیکن بین الاقوامی برادری اور بڑی طاقتیں اس سے آگے بڑھنے کیلئے تیار نہیں۔
15 جنوری کو پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ایک اجلاس ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق چین کے سوا کونسل کے باقی چار مستقل اراکین میں سے کوئی کشمیر کا مسئلہ زیر بحث لانے کیلئے تیار نہ تھا۔ یہ اجلاس چین کے اصرار پر بلایا گیا اور اراکین نے بند کمرے میں بیٹھ کر کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کا بھی نمائندہ اس اجلاس میں شریک نہیں تھا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس اجلاس کے بعد کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ بند کمرے کے اجلاس میں کونسل کے ارکان نے کشمیر پر کیا بات کی اس سے باہر کے لوگ بے خبر ہیں۔ صرف چین کے نمائندے نے اجلاس کے بعد میڈیا ارکان سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کے ارکان کو کشمیر کی صورتحال پر سخت تشویش ہے اور وہ اس مسئلے کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں‘ لیکن اس سلسلے میں نہ بھارت پر دبائو ڈالنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے اس میں مداخلت کے حامی ہیں۔ اس کے برعکس اس کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں اس مسئلے کو مل کر دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کریں‘ حالانکہ باقی دنیا کی طرح سلامتی کونسل کے بھی تمام اراکین کشمیر کو ایک متنازعہ اور بین الاقوامی مسئلہ تسلیم کرتے ہیں۔ صرف چین ایک ایسا ملک ہے‘ جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی مداخلت کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی راہ ہموار کرنے کیلئے 5 اگست سے اب تک دو بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے پاکستان کی درخواست کی حمایت کر چکا ہے۔ اگر ہم کشمیر پر چین کے تازہ ترین بیانات کا قریب سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ وہ وہاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متفقہ قراردادوں کا ذکر کر چکا ہے۔ چین مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو طرفہ بنیادوں پر باہمی معاہدوں سے استفادہ کرنے پر بھی زور دیتا ہے‘ مثلاً 17 جنوری کو چین کی وزارت خارجہ نے کشمیر پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جو بیان جاری کیا‘ اس میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مناسب اور پُرامن طریقے سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں پُرامن ذرائع سے دو طرفہ معاہدوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس مؤقف کی بنا پر چین (اس مسئلے کے حل کیلئے) ایک تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے اور اس مقصد کیلئے چین دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت‘ دونوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھائیں‘ صبروتحمل سے کام لیں اور کشیدگی میں کمی کیلئے اقدامات کریں۔ دیگر اہم ممالک مثلاً امریکہ‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس کی جانب سے بھی جنوبی ایشیا کی موجودہ صورتحال پر تبصرے کے ہمراہ اگر ہم چین کے مؤقف کا جائزہ لیں تومعلوم ہو گا کہ انہیں خطے کی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے اور وہ اس کا سبب مسئلہ کشمیر کو گردانتے ہیں اور اسی لئے اسکے حل پر زور دے رہے ہیں‘ مگر اس کیلئے وہ پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کے خواہشمند ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری اور بارآور بات چیت کا کیلئے سازگار ماحول پیدا ہو سکے۔ ان تمام ممالک کی طرف سے پیشکش کی جا چکی ہے کہ وہ ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں‘ مگر بنیادی ذمہ داری ان دونوں ملکوں پر عاید ہوتی ہے۔
5 اگست کے بھارتی اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور خود پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اس کی سنگینی اور خطرناک مضمرات سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے میں پاکستان نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘ خاص طور پر فروری 2019 میں پلوامہ واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال کا حوالہ دے کر پاکستان نے متعدد بار بین الاقوامی برادری کی توجہ اس امر کی طرف دلائی ہے کہ دونوں ملکوں میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے‘ اس لئے بڑی طاقتوں‘ خصوصاً اقوام متحدہ کو موجودہ بحران ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں‘ مگر پاکستان نے ان طاقتوں کے ردعمل کو مایوس کن بیان کیا‘ اور اس کی وجہ بھارت کے ساتھ ان طاقتوں کے وابستہ معاشی اور تجارتی مفادات کو قرار دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے کون سے راستے کھلے ہیں؟ میرے خیال میں پاکستان کو 5 اگست کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر دو حصوں میں یعنی فوری اور طویل المیعاد بنیادوں پر اپنی سفارتکاری کی مہم چلانی چاہئے۔ فوری طور پر پاکستان کا مقصد کشمیر میں 5 اگست کے بھارتی اقدامات کی واپسی اور موجودہ لاک ڈائون کا خاتمہ ہونا چاہئے تاکہ کشمیری عوام اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہیں‘ ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ اس پر عالمی برادری پاکستان کے ساتھ ہے اور اس کی حمایت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں مودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرین‘ جن میں ہندو بھی شامل ہیں‘ کشمیریوں کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ حکمت عملی کے طویل المیعاد جزو کے تحت پاکستان (اور بھارت) کو کشمیر کا حتمی حل تلاش کرنے کیلئے ان چار باتوں کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اول ‘ وہی حل حتمی اور پائیدار ہو سکتا ہے جو پاکستان‘ بھارت اور کشمیری عوام کو قابل قبول ہو گا۔ دوئم‘ اس کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔ سوئم‘ فریقوں کو اپنے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ چہارم‘ جس طرح پاک بھارت تعلقات کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے‘ اسی طرح مسئلہ کشمیر پُرامن تعاون اور خیر سگالی پر مبنی پاک بھارت تعلقات سے جڑا ہوا ہے اور اس کیلئے دونوں ملکوں کے مابین شکوک و شبہات اور بداعتمادی کو دور کرنا ضروری ہے۔ اور آخری بات یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف پُرامن طریقے سے صرف قدم بقدم ہی پیش قدمی ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت اس حکمت عملی پر راضی ہو جائیں تو بین الاقوامی برادری پورا ساتھ دینے کو تیار ہے۔