مئی 1948ء میں جب اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا‘ تو اس کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی ان علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر‘ جنہیں نئی یہودی ریاست کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا‘ ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان پناہ گزینوں کو بعد ازاں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر جب 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ گولان کی پہاڑیوں اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا‘ تو فلسطینیوں نے 1948ء والی غلطی دُہرانے کی بجائے‘ مقبوضہ عرب علاقوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینی باشندے یہودی ریاست کے حکمرانوں کے لیے لوہے کا چنا بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے ان فلسطینی باشندوں کے خلاف ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے‘ انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا‘اُن کے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں فلسطینی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی‘فلسطینی رہائشی علاقوں کی ناکہ بندی کر کے انہیں ضروریات ِزندگی کی ترسیل سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی‘ ملازمتوں سے برطرف کرنا تو عام معمول تھا اور سکیورٹی کے نام پر عام شہریوں‘ جن میں مرد‘ عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے‘ کو انتہائی ناروا اور ہتک آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ ان سب اقدامات کا مقصد مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینی باشندوں کو اپنی زمین‘ جائیداد اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ لیکن فلسطینی باشندے ڈٹے رہے اور نامساعد حالات میں بھی جہاں تک ممکن ہو سکا‘ اسرائیلی اقدامات کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ اس عرصہ کے دوران اسرائیلی حکام نے طاقت کے بل بوتے پر بے شمار فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں نئی یہودی بستیاں بھی بسالیں‘ لیکن فلسطینی اپنی سرزمین اور اپنے علاقوں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر دیا گیا‘ ہزاروں فلسطینیوں کو مزاحمت کرنے پر جیل میں ڈال دیا گیا اور انہیں طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا‘ لیکن اسرائیل کو ایک خالصتاً یہودی ریاست بنانے کا خواب پورا نہ ہو سکا؛تاہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں مسئلہ فلسطین کو'' حل ‘‘کرنے کے لیے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ اسرائیل کے اسی دیرینہ خواب کو پورا کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے‘ جس میں یہودیوں کے حقوق کا تو خوب خیال رکھا گیا‘ لیکن فلسطینیوں کے حقوق کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا۔ لیکن اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کے خلاف نہ صرف فلسطینیوں کی جانب سے بلکہ دنیا کے بڑے حصے سے احتجاج کی جو صدائیں بلند ہوئی ہیں‘ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی پہلے منصوبوں کی طرح یکطرفہ اور جانب دارانہ ہے اور ناکام رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ اب تک کئے گئے تمام وعدوں اور معاہدات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں اور اہم 1993ء کا معاہدہ اوسلو ہے‘ جو صدر جارج بُش سینئر کے زمانے میں ہومنے والی سیکرٹری آف سٹیٹ جیمز بیکر کی کوششوں سے طے پایاتھا۔ یہ امریکہ‘ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ تھا جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک بتدریج آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ شامل تھا‘ لیکن اسرائیل نے اس معاہدے پر کبھی بھی مکمل طور پر عمل درآمد کرنے کی کوشش نہیں کی‘بلکہ مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ میں رکاوٹ ڈالتا رہا اور اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کی تکمیل میں لگا رہا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ فلسطینی اور عرب حکومتیں اس بات پر راضی ہو جائیں کہ اسرائیل مکمل طور پر ایک یہودی ریاست ہو گی‘ لیکن نہ صرف عربوں بلکہ بین الاقوامی برادری نے بھی اسرائیل کی اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ کیونکہ اس کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں سے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کر کے ان کی جگہ نئی یہودی بستیاں بسانا اور نسلی بنیادوں پر ایک خالصتاً یہودی ریاست کو قائم کرنا تھا۔
صدر ٹرمپ اپنے پیش کردہ منصوبے کے ذریعے وہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اسرائیل اپنی تمام تر طاقت اور ڈپلومیسی کے ذریعے اب تک حاصل نہیں کر سکا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی اور ملک ایسا ہے جو اسرائیل کی طرح ایک ہی نسل ‘ مذہب اور ثقافت کے حامل لوگوں پر مشتمل ملک اور قوم کی تشکیل چاہتا ہے تو وہ بھارت ہے‘ جس کا وزیراعظم نریندر مودی ہندوتوا کی بنیاد پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو قومی دھارے سے الگ کر کے بھارت میں ہندو راشٹریہ (ہندو ریاست) قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل اگر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں ‘ تو اس کی ایک بڑی وجہ کے درمیان پائی جانے والی یہ یکسانیت بھی ہے۔ یعنی یہ تینوں ممالک نسلی‘ مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر اپنے اپنے ملکوں کی آبادی کی تطہیر کر کے یکساں ثقافتی ملک کو بنانا چاہتے ہیں۔ مگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ ایسے معاہدے کو دنیا میں کبھی بھی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ملکوں کا رویہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ ہے اور انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسی سے سخت اختلاف کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے لیے ایک آخری موقعہ قرار دیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے برسوں پرانے عرب‘ اسرائیل تنازع آخر کار حل ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ نازی جرمنی کے اُس منصوبے سے مکمل مشابہت رکھتا ہے جس کے ذریعے لاکھوں یہودیوں اور دیگر غیر آریائی باشندوں کو قتل کر کے ہٹلر ایک خالص جرمن قوم کی تشکیل چاہتا تھا۔ اس منصوبے کا خوبصورت اور دلکش زبان میں جو جال بچھایا گیا ہے‘ فلسطینی عوام اُس سے بخوبی آگاہ ہیں‘ اسی لیے انہوں نے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو ''ڈیل آف دی سینچری‘‘ قرار دیا تو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس منصوبے کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دیا ہے‘ جس میں ایک فریق (اسرائیل) کے حقوق کا تو پورا پورا خیال رکھا گیا‘ لیکن دوسرے فریق (فلسطینیوں)کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔۔ اگرچہ خلیجی ریاستوں یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس منصوبے کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس منصوبے کی بنیاد پر فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے‘ مگر ان ملکوں نے بھی اس منصوبے کو قبول نہیں کیا بلکہ قاہرہ میں عرب لیگ کے جس اجلاس میں اس منصوبے کو مسترد کیا گیا ہے‘ اس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ بھی شریک تھے۔
عالم عرب سے باہر متعدد مسلمان ملکوں نے بھی اس معاہدے کو نہ صرف مسترد کر دیا ہے بلکہ اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت بھی کی ہے‘ کیونکہ معاہدے کی شرائط کا مکمل جائزہ لینے کے بعد صاف نظر آ جاتا ہے کہ اس کا مقصد اسرائیل کو یک طرفہ طور پر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے اور وہاں نئی یہودی بستیوں کو آباد کرنے کی اجازت فراہم کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے یورپی ممالک نے بھی مسترد کر دیا ہے‘ کیونکہ اس سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا صاف امکان نظر آتا ہے۔