پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے حال ہی میں ایک بریفنگ میں کہا ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو عالمی سیاسی افق پر زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کے لیے اپنی بھرپور سفارتی مہم جاری رکھے گی اور اس مقصد کے لیے اس مسئلے کے سیاسی اور قانونی پہلوئوں پر زور دیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو آگاہی بین الاقوامی سطح پر پائی جاتی ہے‘ وہ پاکستان کی جارحانہ سفارت کاری کی بدولت ہے۔ خصوصاً 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان نے مختلف فورمز اور مختلف مواقع پر جس طرح اس مسئلے کو اٹھایا ہے‘ اس کی بدولت کشمیر کے بارے میں بھارت کی منافقانہ پالیسی دنیا پر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہوئی ہے۔ اس کا ذکر وزیر اعظم عمران خان نے امسال 5 فروری کو کشمیر ڈے کے موقعہ پر مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کی مجلس قانون ساز سے خطاب کے دوران بھی کیا۔ اس خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقاتوں میں انہیں تین دفعہ مسئلہ کشمیر کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ اسی طرح جرمن چانسلر انجلا مرکل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی کشمیر کی صورتحال پر بات ہوئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مختلف ممالک کے حکام کے ساتھ رابطہ پیدا کرکے کشمیر کی خطرناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس طرح کشمیری عوام کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی قیادت کی طرف سے یہ کوششیں کافی حد تک موثر ثابت ہوئی ہیں‘ لیکن وزارت خارجہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری کی مہم میں اس کے سیاسی اور قانونی پہلوئوں پر فوکس کرنے کا اعلان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ان شعبوں میں کشمیر پر پاکستان کا موقف بہت مضبوط ہے اور کشمیر پر قانونی سفارت کاری کے ذریعے بھارت کو مزید ایکسپوز کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اکتوبر 1947ء میں بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوجی مداخلت کو ہمیشہ یہ کہہ کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دئیے تھے۔ لیکن بھارت آج تک الحاق کی دستاویز پیش نہیں کر سکا۔ قانون کی نظر میں بھارت کا یہ دعویٰ ابھی تک مشکوک اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم کے متعدد بیانات ایسے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے الحاق کا فیصلہ حتمی نہیں‘ اور اسے اس وقت فائنل سمجھا جائے گا جب کشمیری عوام اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ پنڈت نہرو نے یہ یقین دہانی صرف کشمیری عوام کو ہی نہیں کروائی بلکہ اپنے پاکستانی ہم منصب نواب زادہ لیاقت علی خان کے نام اپنے خطوط میں بھی اپنے اس موقف کو دہرایا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں امن و امان قائم ہوتے ہی عوام کی حتمی رائے لی جائے گی۔ آج کل کشمیر پر بھارتی موقف کا سارا زور اس بات پر ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے اور بین الاقوامی برادری کے کسی رکن ملک کو اس میں مداخلت کا حق نہیں۔ اسی موقف کی بنیاد پر بھارت دیگر ممالک کی طرف سے پیش کردہ ثالثی کی ہر پیشکش کو مسترد کرتا اور اس بات پر مستقل اصرار کرتا چلا آ رہا ہے کہ شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ تسلیم کر چکا ہے‘ لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ 1948ء میں بھارت مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جو قراردادیں منظور کیں‘ انہیں بھارت نے بھی تسلیم کیا اور ان پر عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت بعد میں اپنے وعدوں سے مکر گیا اور مختلف حیلے بہانوں سے ان قرارادادوں پر عملدرآمد سے انکار کرتا رہا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد سے اب تک‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر تین مرتبہ زیر بحث آ چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کے حق میں اس سے بڑا کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے؟ قانونی سفارت کاری کے حق میں مزید ایک دلیل یہ بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ ابھی تک دنیا اسے صرف ایک سیاسی مسئلے کے طور پر ہی سمجھتی چلی آتی رہی ہے اور اس بارے میں مختلف ممالک اپنے اپنے موقف کو سیاسی بنیادوں پر ہی پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے سیاسی پہلوئوں کی اہمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور آخرکار اسے سیاسی عمل کے ذریعے ہی حل کرنا پڑے گا‘ لیکن اگر اسے قانونی تناظر میں رکھتے ہوئے دنیا پر واضح کیا جائے کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی قانون کے مروجہ اصولوں کی کس طرح خلاف ورزی کی ہے اور بدستور ان اصولوں کی نفی کر رہا ہے‘ جن کی بنیاد پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کھڑے کیے گئے ہیں تو کشمیری عوام کی حمایت میں عالمی رائے عامہ کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو تقویت حاصل ہو گی۔ بھارت پر عالمی دبائو میں اضافہ ہو سکتا ہے اور جس طرح گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصہ سے کشمیری عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے‘ بین الاقوامی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں کی طرف سے بھارت کی موجودہ حکومت کو ان پابندیوں کو ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا جو توجہ دے رہا ہے‘ اس کا ماخذ وادی میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں ہیں۔ کرفیو کی سخت پابندیوں کی وجہ سے کشمیری عوام ان مظالم کے خلاف احتجاج نہیں کر سکتے۔ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت پیش کر کے بھارت نے کافی خیر سگالی حاصل کی تھی‘ مگر اب کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر کے بھارت کی نیک نامی بدنامی میں بدل چکی ہے۔ بھارت نے ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ان کی وجہ سے کشمیر کی آن گرائونڈ صورتحال کے بارے میں باہر کی دنیا کو کچھ معلوم نہیں‘ مگر جو اطلاعات باہر آتی ہیں‘ ان پر فوری طور پر اور سخت رد عمل آتا ہے۔ گزشتہ دنوں حکام نے مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی نظر بندی میں مزید چھ ماہ کا اضافہ کر دیا۔ ان دونوں رہنمائوں کو پچھلے سال اگست میں گرفتار کیا گیا تھا‘ اور جس قانون (سیفٹی ایکٹ) کے تحت ان دونوں اور دیگر رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘ وہ بھارتی حکام کو بغیر کوئی وجہ بتائے ملزم کو دو سال تک قید میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس طرح کے اور متعدد ایسے قوانین ہیں‘ جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اور مروجہ انصاف کے تقاضوں کی نفی کرتے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ان تمام قوانین کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ اس نا انصافی اور جبر کے خلاف صدائے احتجاج صرف پاکستان میں ہی نہیں خود بھارت میں بھی بلند ہو رہی ہے۔ اگر پاکستان کی بین الاقوامی سفارتی مہم میں ایسے تمام قوانین سے بھی پردہ ہٹا کر انہیں ان کی اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو عالمی رائے عامہ کا مزید جھکائو کشمیریوں کی طرف ہو سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی طریقوں سے ہی کیا جا سکتا ہے اور قانونی طریقوں سے نتائج حاصل کرنے کے مواقع خصوصاً جہاں مسئلہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کے درمیان ہو‘ محدود ہوتے ہیں‘ لیکن قانونی طریقوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ ایک جامع اور وسیع حکمت عملی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں‘ غالباً یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان لیگل ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرکے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جانے کا سوچ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے ایک لا حاصل سعی بلکہ نقصان دہ کوشش قرار دیں‘ مگر حصول انصاف کے لئے اگر مواقع دستیاب ہیں تو اس سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس وقت بعض ممالک کے مایوس کن روئیے کے باوجود عالمی رائے عامہ کی نظر میں بھارت مسئلہ کشمیر میں ایک مجرم کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس لئے سلامتی کونسل یا بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے سے کشمیر پر پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔