قطر کے دارالحکومت دوحہ سے موصول ہونے والی تازہ اطلاعات کے مطابق امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے حالیہ دور کے بعد افغانسان میں قیام امن کے لئے سمجھوتہ مکمل طور پر طے پا گیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس پر رواں ماہ کے اختتام سے قبل دستخط ہو جائیں گے۔ امریکہ کے علاوہ افغان طالبان کے قریبی ذرائع نے بھی اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ اس کے مطابق طالبان فوری طور پر ایک مختصر مدت کے لئے فائر بندی رضا مند ہو گئے ہیں۔ یہ فائر بندی ہفتہ کے روز سے شروع بھی ہو چکی ہے۔ اس کے بعد افغانستان سے تقریباً تیرہ ہزار امریکی اور غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں انٹرا افغان مذاکرات کا انعقاد ہو گا اور اگر معاملات باہمی مفاہمت کے مطابق درست ڈگر پر چلتے رہے تو افغان طالبان جنگ بندی کی مدت میں توسیع بھی کر سکتے ہیں‘ بلکہ اسے ایک مستقل جنگ بندی میں تبدیل کرنے پر بھی آمادہ ہو جائیں گے۔
افغان طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری تھا۔ گزشتہ سال ستمبر میں تقریباً تمام نکات پر فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا تھا‘ مگر فوری جنگ بندی کا مسئلہ اٹکا ہوا تھا۔ طالبان نے فوری طور پر جنگ بندی کے لئے امریکہ کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا اور خصوصاً افغان سرکاری فوجوں کے خلاف جنگی کارروائیاں روکنے پر وہ بالکل بھی راضی نہ تھے۔ مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد افغان طالبان کا جنگ بندی پر آمادہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں امن کی منزل قریب ہے۔ دوحہ سے آنے والی خبروں کے مطابق طالبان نہ صرف امریکی افواج کے انخلا کیلئے ایک پُر امن اور خوش گوار فضا قائم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں‘ بلکہ وہ افغانستان میں کچھ امریکی افواج کے قیام کو بھی تسلیم کرنے پر بھی تیار ہیں۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں‘ تو اسے ایک اہم اقدام گردانا جائے گا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ افغانستان میں گزشتہ 18 سال سے جاری خون ریز خانہ جنگی آخر کار اپنے اختتام سے ہمکنار ہونے والی ہے؛ تاہم ان ساری مثبت پیش رفتوں کے باوجود ایک مستقل اور پائیدار امن کی منزل پہ پہنچنے میں جو مشکلات اور رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں‘ ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سب سے اہم انٹرا ا فغان ڈائیلاگ کے فریم ورک پر فریقین کے مابین اتفاق اور کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کا مستقبل ہے۔ طالبان اس حکومت (اشرف غنی حکومت) کو غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں اور اس سے براہ راست بات چیت کرنے پر تیار نہیں ہیں‘ حتیٰ کہ افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ ہونے والے اپنے مذاکرات میں بھی افغان حکومت کو شامل نہیں ہونے دیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اور افغان سرکاری فوجوں کے درمیان جنگ میں اب تک بالا دستی طالبان کو ہی حاصل رہی ہے اور خود امریکی ذرائع کے مطابق اتحادی افواج کی طرف سے زمینی اور ہوائی امداد کے بغیر افغان سرکاری افواج ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکتیں‘ یعنی وہ افغان طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ طالبان کے مقابلے میں افغانستان کی سرکاری افواج کے حوصلے بہت پست ہیں اور ان میں بھگوڑوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ حالانکہ امریکہ نے ان کی تربیت پر اور انہیں مسلح کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔ گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے اعلان کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے بطور صدر دوبارہ حلف لینے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں اپنی حکومت کی نمائندگی کرنے پر اصرار کریں گے۔ اس کا انجام کیس ہو گا؟ اس کے بارے میں یقین کے ساتھ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے؛ تاہم افغانستان میں قیام امن کے لئے کوشاں مقامی اور بین الاقوامی حلقوں کو امید ہے کہ یہ مشکل مرحلہ بھی طے کر لیا جائے گا اور فریقین کو ایک ایسے فارمولے پر متفق ہونے پر آمادہ کر لیا جائے گا‘ جس کے تحت سب کے مفادات کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے گا۔
اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ اٹھارہ برس کی جنگ کے بعد متحارب فریق‘ جن میں افغان طالبان بھی شامل ہیں‘ جنگ سے اکتا چکے ہیں‘ کیونکہ اس میں افغانستان کے عوام بہت زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھا چکے ہیں‘ لہٰذا تمام فریقوں کی خواہش ہے کہ اب اس علاقے میں امن قائم ہو جانا چاہئے۔ خود امریکی‘ دنیا کی طاقت ور ترین فوجی طاقت ہونے کے باوجود‘ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس جنگ کو جیتا نہیں جا سکتا؛ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امریکی افواج کے انخلا کے لئے اس وجہ سے بے چین ہیں کہ اس سے انہیں آئندہ صدارتی انتخاب دوبارہ جیتنے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیاں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹک‘ افغانستان کے کمبل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں اگرچہ امریکہ براہ راست ملوث ہے اور اسی لئے اس سے نجات چاہتا ہے لیکن افغانستان کے طاقت ور ہمسایہ ممالک یعنی روس اور چین بھی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ کیونکہ اس کے جاری رہنے سے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ جو ان دونوں ملکوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ اسی طرح افغانستان کے ہمسایہ پاکستان اور ایران کے علاوہ خطے کے دیگر اہم ممالک مثلاً سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی اس جنگ کے جلد از جلد اختتام پذیر ہونے کے خواہش مند ہیں۔ خود افغانستان کے اندر بھی جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں عوامی جذبات اور خواہشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے یعنی جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں مختلف حلقوں کی جانب سے بھی مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں سول سوسائٹی‘ سول کارکن‘ دانشور اور خاص طور پر خواتین کی طرف سے امن کے حق میں متعدد بار مظاہرے اور لانگ مارچ کا انعقاد ہو چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف قومی اور علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی افغانستان میں جنگ بندی اور قیام امن کے حق میں ایک طاقت ور تحریک پیدا ہو چکی ہے۔ اسس میں کوئی شک نہیں کہ فریقین خصوصاً طالبان نے مذاکرات کے دوران لچک کا مظاہرہ کیا ہے‘ جس کی بدولت گزشتہ اٹھارہ برس کی جنگ کے بعد پہلی دفعہ افغانستان میں امن قائم ہونے کا جو ایک یقینی امکان پیدا ہوا ہے اس میں اس تحریک کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
اگر حالات توقعات کے مطابق مثبت انداز میں درست سمت میں آگے بڑھتے ہیں اور افغانستان میں جنگ بندی ہونے کے بعد امریکی افواج کا انخلا عمل میں آتا ہے تو جدید دور میں انگریزوں اور روسیوں کے بعد امریکہ تیسری سپر طاقت ہو گی‘ جسے افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب اکتوبر 2001ء میں امریکیوں نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں یہ انجام دیکھنا پڑے گا یا اس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا‘ کیونکہ صرف ایک مہینے کے اندر زبردست ہوائی طاقت کے استعمال سے امریکیوں نے افغان طاللبان کو کابل‘ قندھار اور ملک کے دیگر علاقوں سے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس طرح اس سے پانچ سال قبل یعنی 1996ء میں کابل پر قبضہ کر کے افغان طالبان نے ''اسلامی اماراتِ افغانستان‘‘ کے نام سے جو حکومت قائم کی تھی‘ اسے ختم کر دیا گیا‘ لیکن دو سال بعد یعنی 2003ء میں صدر بش نے عراق پر حملہ کر دیا اور امریکہ کی ساری توجہ اور وسائل کا رخ عراق کی طرف ہو گیا۔ افغان طالبان نے اس سے فائدہ اٹھایا اور کسمپرسی کے باوجود آہستہ آہستہ منظم اور مسلح ہونے کے بعد ایک ایسی قوت میں تبدیل ہو گئے‘ جس نے آخر کار امریکیوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے ثانت کر دیا کہ افغانستان واقعی حملہ آور سلطنتوں کے لئے ایک قبرستان ہے۔