اب جبکہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات تقریباً یقینی صورت اختیار کر چکے ہیں‘ کیونکہ ہفتہ 22 فروری سے افغانستان کے طول و عرض میں جنگ کا دائرہ کافی تنگ ہو گیا ہے اور فریقین نے 29 فروری کو ایک باضابطہ امن معاہدے پر دستخط کا اعلان کر دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ بین الاقوامی برادری خصوصاً بڑی طاقتیں اسی خطے میں عرصہ دراز سے جاری ایک اور اہم علاقائی تنازعہ یعنی کشمیر کے حل کی طرف متوجہ ہوں گی‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین جموں و کشمیر کا تنازعہ گزشتہ 72 برسوں سے جاری ہے اور اس کا جاری رہنا علاقائی اور عالمی امن کیلئے افغانستان سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ دونوں کے درمیان گزشتہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ کے دوران تین بڑی اور ایک دو مقامی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وجہ کشمیر تھا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی اور محاذ آرائی کی جو کیفیت پائی جاتی ہے‘ اس کا سبب بھی کشمیر ہی ہے۔ گزشتہ سال 27 فروری کو بھارتی فضائیہ کی طرف سے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ پر حملے کے جواب میں پاکستان کی کارروائی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین تصادم کا اس حد تک شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ با خبر ذرائع کے مطابق پاکستان اور بھارت ایٹمی جنگ سے بال بال بچے تھے۔ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی عارضی سرحد یعنی لائن آف کنٹرول کے آر پار پاکستانی اور بھارتی افواج ایک دوسرے پر فائرنگ کرتی اور گولے برساتی رہتی ہیں۔ اس سے نہ صرف دونوں طرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگوں کے گھر‘ مال مویشی اور دیگر جائیدادیں بھی محفوظ نہیں۔
بین الاقوامی اور مغربی مبصرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدگی خصوصاً لائن آف کنٹرول کی صورتحال کسی وقت بھی ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ جرمنی کے شہر میونخ میں حال ہی میں منعقدہ ایک سکیورٹی کانفرنس میں پیش کردہ رپورٹ میں اسی قسم کے خدشات ظاہر کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات 1947 سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ دونوں میں اس عرصے میں تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سال کے واقعات کی وجہ سے صورتحال اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ایک اور بڑی جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے اور اس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا پورا پورا احتمال ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے تو دو سو کروڑ لوگ لازمی طور پر لقمۂ اجل بن جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی سطح بہت بلند ہے اور دونوں ملک جدید اور مہلک ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑی تو چین اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکے گا۔ گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر میں 14 فروری کے پلوامہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے ''موجودہ کشیدہ ماحول میں اگر کشمیری مجاہدین کی طرف سے اس قسم کا کوئی اور حملہ ہوا تو اس سے صورتحال ایک خطرناک موڑ لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور چونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں‘‘ اس لئے خطے میں ایک ایٹمی جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میونخ سکیورٹی رپورٹ کے علاوہ گزشتہ سال اکتوبر میں امریکہ کی یونیورسٹیوں‘ یونیورسٹی آف کولیریڈو‘ بولڈر اور رٹگزر نے بھی ایک مشترکہ رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک ایٹمی جنگ کے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اندازہ لگایا تھا کہ اس صورت میں پانچ سے ساڑھے بارہ کروڑ انسان فوری طور پر ہلاک ہو جائیں گے۔
جنوبی ایشیا میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال نے صرف علمی اور تحقیقی حلقوں کو ہی اپنی طرف متوجہ نہیں کیا بلکہ اسے ڈیفیوز کرنے کیلئے سیاسی اور سفارتی کوششوں کے بھی آثار نظر آ رہے ہیں‘ مثلاً گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے چار روزہ دورۂ پاکستان کے دوران پاکستان اور بھارت کے مابین موجود کشیدگی‘ خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر شدید جھڑپوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں پر زور دیا تھا کہ وہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کیلئے پوری پوری کوششیں کریں‘ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں پر نہ صرف فائرنگ کا سلسلہ بند کریں بلکہ اشتعال انگیز بیان بازی سے بھی پرہیز کریں تاکہ صورتحال مزید خراب نہ ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت راضی ہوں تو وہ کشمیر پر دونوں ملکوں میں ثالثی کا بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ بھارت نے سیکرٹری جنرل کی اس پیشکش کو ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین صرف دو طرفہ بنیادوں پر ہی بات چیت ہو سکتی ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے عالمی سطح پر کوششوں میں نمایاں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے بعد امریکی صدر کے دورہ بھارت کے آغاز پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واشنگٹن میں جو بیان دیا‘ اس میں بھی اسی قسم کے اشارے دئیے گئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو پاک بھارت کشیدگی خصوصاً لائن آف کنٹرول پر آئے روز کی جھڑپوں پر سخت تشویش ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ملکوں پر زور دیں گے کہ وہ اس کشیدگی کو کم کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں کیونکہ لائن آف کنٹرول پر امن قائم رکھنا دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اور تازہ خبر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورۂ بھارت کے اختتام پر ایک بار پھر دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
اندیشہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یا ان کے علاوہ دیگر تمام با اثر شخصیات کی طرف سے آنے والی پیشکشوں کی طرح بھارت کی حکومت ٹرمپ کی پیشکش کا بھی منفی جواب دے گی‘ مگر نریندر مودی کب تک عالمی رائے عامہ اور خود اپنے ملک میں ظلم و استبداد کے خلاف اٹھنے والی آواز کو نظر انداز کر سکیں گے؟ 5 اگست سے اب تک 80 لاکھ کشمیری عوام محاصرے کی حالت میں ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی جس قدر سنگین طریقے سے کی جا رہی ہے‘ اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس لئے نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ خطے کے ممالک بھی اس صورتحال پر پریشان ہیں اور اس کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کے قائم ہونے کے بعد امن دوست عناصر کو کشمیر پر فوکس کرنا چاہئے کیونکہ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں تبدیلی کے بغیر پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکتا۔ اس وقت مختلف اطراف سے پاک بھارت کشیدگی پر تشویش کے نقطہ نظر سے جو بھی بیانات آ رہے ہیں‘ ان میں سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے‘ براہ راست دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے طے کرنے چاہئیں۔ پاکستان اس رائے سے نہ صرف اتفاق کرتا ہے بلکہ اس کے لئے کہیں بھی کسی بھی وقت حصہ لینے کو تیار ہے۔ لیکن بھارت کا رویہ منفی اور معاندانہ ہے۔ اس کا ثبوت بھارتی حکام کے متعدد بیانات ہیں‘ جن میں بھارتی افواج کے کمانڈر آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام اس اصول کی بنیاد پر عمل میں آ رہا ہے کہ تمام تنازعات کا حل بالآخر مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر یہ اصول افغانستان کیلئے کارآمد ہے تو اسے کشمیر کے حوالے سے کیوں موقعہ نہیں دیا جا رہا؟