سابق امریکی صدر بارک اوباما کی دوسری مدت کے آغاز پر جب امریکہ نے افغانستان میں جنگ بند کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا‘ تو بہت سے مبصرین نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور نے طالبان کے ہاتھوں شکست تسلیم کر لی ہے اور عنقریب اس کی افواج افغانستان سے بھی اسی طرح بھاگ جائیں گی‘ جس طرح انہوں نے 1974 میں ویت نام سے پسپائی اختیار کی تھی‘ مگر افغانستان کی جنگ نا صرف مزید چھ سال جاری رہی بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے امسال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج مرحلہ وار افغانستان میں اپنے فوجی اڈے اور ٹھکانے خالی کریں گی‘ اور اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ معاہدہ کے تحت طالبان نے جو شرائط تسلیم کی ہیں‘ وہ پوری ہوتی ہیں یا نہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک کی فوجوں کا انخلا نہ تو فوری اور نہ ہی غیر مشروط طور پر عمل میں آئے گا۔ یہ شرائط کون سی ہیں‘ جن پر عمل درآمد ہی دراصل معاہدے کی کامیابی کا ضامن ہے۔ معاہدے کے دوسرے حصے میں ان کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور مبصرین کے مطابق یہ معاہدے کا سب سے اہم حصہ ہے۔ ان شرائط کے مطابق معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امریکہ 135 دنوں میں اپنی 13000 فوجی کم کر کے افغانستان میں ان کی تعداد 8600 کی سطح تک لے آئے گا اور باقی ماندہ افواج کا انخلا ساڑھے نو ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ اس کے بدلے میں طالبان نے جو شرائط تسلیم کی ہیں‘ وہ یہ ہیں: ایک مستقل اور ملک گیر جنگ بندی اور افغانستان کے آئندہ سیاسی نظام کی تشکیل کے لئے 10 مارچ کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں طالبان اور افغانستان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے‘ جنہیں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق دوحہ معاہدے پر عمل درآمد بلکہ اس کے مستقبل کا انحصار انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی پر ہے۔ اگر انٹرا افغان ڈائیلاگ (اوسلو مذاکرات) طول پکڑتے ہیں تو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔ امریکی حکام نے اپنے تبصروں میں یہ واضح کر دیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی سے مشروط ہے۔ اگر انٹرا افغان ڈائیلاگ ناکامی کا شکار ہوتے ہیں تو دوحہ معاہدہ بھی دھڑام سے نیچے آ گرے گا‘ کیونکہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کو نہ صرف ملتوی بلکہ منسوخ بھی کر سکتا ہے۔
بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی افواج کو جلد از جلد نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں دوسری دفعہ امریکہ کا صدر بننے میں اہم مدد حاصل ہو گی۔ اس بات میں خاصی صداقت ہے مگر امریکہ کے قومی سلامتی کے مفادات‘ صدارتی انتخابات میں ایک امیدوار کی کامیابی یا ناکامی سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ افغانستان کے مسئلے سے صرف صدر ٹرپ کا ہی انتخابی مفاد وابستہ نہیں‘ بلکہ ان کے مدِ مقابل ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی ریاست کی اصل قوت‘ یعنی اسٹیبلشمنٹ بھی افغانستان کے مسئلے سے اتنے ہی وابستہ ہیں‘ جتنے صدر ٹرمپ اور یہ سب افغانستان میں روس اور چین کو فری ہینڈ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے اس معاہدے میں فریقین یعنی امریکہ اور طالبان نے مستقبل میں خوش گوار اور بہتر تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے مفہوم یہ لیا جا رہا ہے کہ امریکہ طالبان کو اپنی مرضی کی یا افغانستان میں دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خواہشات اور مفادات کو نظر انداز کر کے یک طرفہ طور پر حکومت قائم کرنے یا ایک واک اوور (Walk Over) کی اجازت نہیں دے گا۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا تو اس کا یہ مقصد بتایا گیا تھا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ آئندہ افغانستان کی سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کیا جا سکے گا۔ معاہدے کے مطابق طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے اور اس مقصد کے لئے وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ (طالبان) کسی دہشت گرد گروہ‘ گروپ یا تنظیم‘ جن میں القاعدہ بھی شامل ہے‘ کو افغانستان میں اپنے اڈے‘ ٹریننگ کیمپ یا مراکز قائم کرنے کے لئے سرگرمیاں جاری رکھنے یا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایسے عناصر کو افغانستان میں داخل ہونے کی بھی اجازت حاصل نہیں ہو گی اور انہیں کسی قسم کا ویزا یا پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیا جائے گا۔ طالبان کی طرف سے اس قسم کی یقین دہانیاں اور خصوصاً اس قسم کے گروپوں کی فہرست میں القاعدہ کی شمولیت اس لیے بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ ماضی میں طالبان نے امریکی دبائو کے باوجود القاعدہ سے تعلق ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ طالبان مذاکرات کے دوران بھی یہی مسئلہ بات چیت کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ طالبان نائن الیون کے حملوں میں ملوث القاعدہ سے نہ صرف اتحاد ختم کر دیں بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کریں۔
دوحہ معاہدے کے مندرجات کے مطابق طالبان نے اگرچہ القاعدہ کی مکمل مذمت نہیں کی؛ البتہ انہوں نے القاعدہ سمیت کسی بھی گروپ یا تنظیم کو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف افغانستان کی سرزمین کو بطور اڈا استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ طالبان سے اس قسم کی یقین دہانیاں حاصل کرنے کا امریکی مقصد نہ صرف اپنی اور اپنے اتحادی ممالک کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے‘ بلکہ ان کے ذریعے امریکہ افغانستان کے ان ہمسایہ یا خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی دور کرنا چاہتا ہے‘ جن کو ڈر ہے کہ امریکی فوجوں کے نکل جانے کے بعد افغانستان ان کے مخالف عناصر کی سرگرمیوں کا اڈا بن جائے گا۔ ان کے یہ خدشات ماضی کے تجربات پر مبنی ہیں‘ جب طالبان کی حکومت کے ہوتے ہوئے افغانستان چین‘ وسطی ایشیا کے علاقے اور کشمیر میں سرگرم جنگجوئوں کے لئے محفوظ ٹھکانہ بن چکا تھا‘ لیکن معاہدے میں طالبان کی طرف سے یہ واضح یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ افغانستان کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ مگر اس کے باوجود معاہدے میں متعدد امور غیر واضح اور باہمی تضاد کا شکار نہیں‘ مثلاً امن کے اس معاہدے پر طالبان اور امریکہ نے دستخط کئے ہیں‘ مگر گزشتہ چھ سال سے جنگ تو طالبان اور صدر اشرف غنی کی حکومت کی افغان فوجوں کے درمیان ہو رہی ہے۔ طالبان نہ صرف صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ مذاکرات اور معاہدے میں ان کو فریق بھی نہیں بنایا گیا۔ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندہ گروپ شریک ہون گے‘ مگر یہ گروپ کیسے تشکیل دئیے جائیں گے‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ صدر اشرف غنی کی حکومت عالمی برادری کی تسلیم شدہ ‘ افغان عوام کی نمائندہ اور منتخب حکومت ہے۔ اس کی اپنی فوج ہے‘ بیوروکریسی ہے اور عملہ ہے۔ اس کا کیا ہو گا؟ اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے موجودہ جمہوری آئین کا کیا مستقبل ہو گا؟ اگرچہ اس آئین کی متعدد دفعات اسلامی ہیں‘ مگر طالبان کا اصرار ہے کہ وہ اس آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور برسرِ اقتدار آ کر ہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔ کیا طالبان اس آئین کو منسوخ کر دیں گے‘ اور اس کی جگہ نیا آئین نافذ کریں گے؟ اگر ایسا کیا گیا تو نیا آئین بنانے کے لیے وہ کون سا طریقہ اختیار کریں گے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں‘ جن میں سے یہ چند ایک ہیں‘ جن کا جواب معاہدے میں موجود نہیں ہے۔ اس لئے بہت سے تبصرہ نگاروں کی رائے ہے کہ ایک مثبت اقدام کے باوجود معاہدے سے افغانستان غیر یقینی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔