پاکستان کو آزادی حاصل کئے 70 برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے‘ مگر آج تک مضبوط اور منظم سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ایک مستحکم نظام قائم نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں مخصوص شخصیتوں یا خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ جب تک ان شخصیتوں یا ان کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا سایہ موجود ہوتا ہے‘ یہ پارٹیاں اسی سیاسی فضا میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں۔ لیڈر کی موجودگی میں پارٹیاں متحد تو نظر آتی ہیں‘ مگر ان کا اتحاد کسی نظریے‘ اصول یا مطمح نظر پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ لیڈر سے وابستگی‘ وفاداری یا اس کی قربت پر مبنی ہوتا ہے۔ جونہی کسی وجہ سے لیڈر اور پارٹی کے درمیان رشتہ کمزور ہوتا ہے‘ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے بلکہ بعض پارٹیاں ہی تتر بتر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے خطے میں اس صورت حال سے صرف پاکستان ہی دوچار نہیں بلکہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا میں بھی بالترتیب نیشنل کانگریس‘ عوامی لیگ‘ نیپالی کانگریس اور سری لنکا فریڈم پارٹی خاندانی سیاسی پارٹیوں کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ مگر پاکستان میں بوجوہ پارٹی سسٹم خصوصی طور پر غیر مستحکم رہا ہے‘ جس کی وجہ سے کیڈر (Cadre) پارٹیوں مثلاً جماعت اسلامی سے ہٹ کر عام پارٹیوں (Mass Parties) پر چند مخصوص خاندانوں یا شخصیتوں کی گرفت اور بھی سخت شکل اختیار کرتی رہی ہے اور جب یہ گرفت ذرا ڈھیلی پڑتی ہے تو پارٹی کا شیرازہ بکھرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس قسم کا منظر حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے چھ ارکان اسمبلی نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی اجازت کے بغیر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پنجاب حکومت کے سربراہ‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ان ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے صوبے میں ان سے تعاون کا یقین دلایا۔
مسلم لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی کی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھی مسلم لیگی ایم پی ایز کے ایک وفد نے نہ صرف وزیر اعلیٰ بزدار بلکہ وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ستمبر میں جن لیگی ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی‘ ان کا تعلق سنٹرل پنجاب سے تھا۔ اس دفعہ جس وفد نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے اپنے تعاون کا یقین دلایا‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی پنجاب کے اضلاع سے ہے‘ مگر جن وجوہات اور شکایات کی بنا پر مسلم لیگ (ن) کے ان ارکان پنجاب اسمبلی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سے اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے‘ وہ ایک جیسی ہی ہے۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے یہ اقدام اپنے حلقے کے عوام کے مفادات کی خاطر کیا ہے‘ کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کو ترقیاتی کام کیلئے فنڈز دستیاب نہیں ہو رہے تھے۔ اس کے علاوہ پارٹی قیادت کے رویے کے بارے میں شکایات بھی مشترک تھیں۔ منحرف ارکان اسمبلی نے دونوں مواقع پر پارٹی قیادت پر کارکنوں اور ارکان اسمبلی سے رابطہ نہ رکھنے اور نظر انداز کرنے کی شکایت کی۔ پاکستان کے سیاسی کلچر اور خود پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے سابقہ ریکارڈ کے تناظر میں اس قسم کے واقعات حیران کن نہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل نے شروع ہونے میں دیر کیوں لگائی؟ کیونکہ کچھ طاقتوں کو یقین تھا کہ نواز شریف کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ن) میں درجنوں ارکان اسمبلی پر مشتمل فارورڈ بلاک کے قیام کے بارے میں پیش گوئی بھی کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کی یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں‘ بلکہ قومی اسمبلی کی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے پارٹی قیادت سے مکمل یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے قائد نواز شریف کی معزولی اور قید کے باوجود مسلم لیگ (ن)کی صفوں میں اتحاد کی وجہ نواز شریف کا وہ بیانیہ ہے جس کے تحت انہوں نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر پاکستان میں سویلین بالا دستی کے قیام کے عزم کا اعلان کیا‘ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی نواز شریف کے اس نعرے پر خوش نہیں‘ بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور خود شریف خاندان کو درپیش مصائب و مسائل کا سبب یہی نعرہ ہے؛ البتہ عوام میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا اور اس کا ثبوت مریم نواز کے جلسوں میں عوام کی بڑھتی ہوئی تعداد تھی۔ غالباً اسی رجحان کو دیکھ کر نون لیگ سے تعلق رکھنے والے وہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی خاموشی سے پارٹی قیادت کا ساتھ دیتے رہے‘ جو مقتدرہ کے ساتھ پارٹی کے بگڑتے ہوئے تعلقات سے گھبرائے ہوئے تھے۔ ان کی جانب سے خاموشی سے پارٹی کا ساتھ دینے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف ان کی سوچ سے اتفاق کرتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی بالآخر اسٹیبلشمنٹ کو مسلم لیگ (ن) کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کر دے گی۔ گزشتہ تقریباً 18 ماہ کے دوران اس قسم کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ نئے سیاسی سیٹ اپ پر نون لیگ کی ڈیل ہو چکی ہے اور حکومت میں تبدیلی نہ صرف ناگزیر ہے بلکہ فوری طور پر ہونے والی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے متعدد ارکانِ اسمبلی‘ جو پارٹیاں بدلنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں‘ اسی امید پر پارٹی کا ساتھ دے رہے تھے کہ کسی کی نظرِ کرم ان پر پڑنے والی ہے یا یہ کہ نئے انتخابات ناگزیر ہو چکے ہیں‘ مگر پنجاب اسمبلی میں نون لیگ کے چھ ارکان کی وزیر اعلیٰ بزدار سے ملاقات اور پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک کی تشکیل سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کے ارکانِ اسمبلی کی امیدیں غلط مفروضوں پر استوار تھیں۔ شہباز شریف کی جلد وطن واپسی کے امکانات میں کمی سے ان کی امیدیں مایوسی میں بدل گئی ہیں کیونکہ شریف برادران کے بعد مسلم لیگ کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھ آئی ہے‘ وہ پارٹی کو متحد نہیں رکھ سکتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سے شریف برادران کی لمبی غیر حاضری نے مسلم لیگ کے اندر قیادت کا ایک بحران پیدا کر دیا ہے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ مریم نواز یہ خلا پُر کر سکتی ہیں مگر اس وقت ان کی توجہ کا زیادہ حصہ اپنے والدِ محترم کی صحت پر مرکوز ہے۔ شہباز شریف کی عدم موجودگی میں خواجہ آصف نے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے جو رول ادا کیا ہے‘ پارٹی کے کارکن اور رہنما اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ خاص طور پرپارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے کو خواجہ آصف نے جس طرح ہینڈل کیا‘ اس سے نہ صرف پارٹی کے عام کارکن اور سینئر رہنما نا خوش ہیں بلکہ نواز شریف بھی ناراض ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد چاہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) دیگر پارٹیوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لے کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ابتدا سے ہی دھڑے بندیوں کا شکار رہی ہے اور شریف برادران کی غیر حاضری سے دھڑے بندی میں شدت آ گئی ہے۔ مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کا پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی قیادت سے رابطہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی میں دھڑے بندی اب ایک گہری دراڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ دراڑ پارٹی کے اندر دو سوچوں کے درمیان ٹکرائو کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف شہباز شریف اور ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور دوسری جانب نواز شریف اور ان کے ساتھ مریم نواز اور چند مرکزی رہنما ہیں۔ جب تک ان کے درمیان تصادم کا مسئلہ حل نہیں ہوتا مسلم لیگ میں قیادت کا بحران رہے گا اور قومی و صوبائی اسمبلی کے مزید ارکان پی ٹی آئی کی قیادت سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آئیں گے۔