چند روز قبل دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر منعقد ہونے والی ویڈیو کانفرنس کا واحد مقصد اگرچہ کورونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کیلئے ''سارک‘‘ ممبر ممالک کے باہمی تعاون کا حصول تھا‘ تاہم چھ سال کے طویل عرصے کے بعد جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون کا یہ اجلاس کئی لحاظ سے اہم اور خوش آئند تھا۔ ایک تو یہ کہ اس سے ''سارک‘‘ کے تقریباً مردہ جسم میں جان کے آثار ظاہر ہوئے۔ دہلی کانفرنس سے پہلے ''سارک‘‘ جس کا قیام 1985 میں عمل میں آیا تھا‘ کی آخری سربراہی کانفرنس (انیسویں)2014 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقد ہوئی تھی۔ اس سے اگلی یعنی بیسویں سربراہی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی تھی‘ مگر نومبر 2016 میں جب اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے وزیر اعظم نواز شریف خطاب کر رہے تھے‘ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نے یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے فوجی کیمپ پر مسلح افراد کے حملے کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کے متعدد فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے۔ بھارت کے بائیکاٹ کے بعد بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ سری لنکا‘ افغانستان اور مالدیپ نے بھی اسلام آباد سربراہی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ نیپال واحد ملک تھا‘ جو اس بائیکاٹ میں شامل نہیں ہوا؛ تاہم کانفرنس منعقد نہ ہو سکی اور پاکستان کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ رکن ممالک کے مشورے کے بعد کانفرنس کیلئے نئی اور مناسب تاریخوں کا اعلان کرے گا۔ مگر بھارت کی طرف سے پاکستان کی میزبانی میں سارک کے سربراہی اجلاس کی مسلسل مخالفت کے باعث تنظیم کی 20ویں سربراہی کانفرنس کا انعقاد گزشتہ چار سال سے معرضِ التوا میں چلا آ رہا تھا۔ اتنے لمبے عرصے کیلئے غیر فعال رہنے کی وجہ سے دنیا ''سارک‘‘ کو تقریباً بھول چکی تھی‘ اگرچہ اس دوران ''سارک‘‘ فریم ورک کے تحت بعض نچلی سطح کی ٹیکنیکل کمیٹیوں کے دہلی اور اسلام آباد میں اجلاس ہوئے‘ جن میں پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے ماہرین کو شرکت کا موقعہ ملا‘ مگر 15 مارچ 2020 کو ویڈیو لنک کے ذریعے دہلی میں ہونے والی کانفرنس اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں پاکستان کے علاوہ سارک کے باقی تمام ممالک کی نمائندگی ان کے سربراہ ریاست یا حکومت نے کی تھی۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم عمران خان کے بجائے ان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کا خیال وزیر اعظم نریندر مودی کو آیا اور انہوں نے ہی اس میں تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کو ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی دعوت دی تھی۔ اس لئے اس کانفرنس کو ''سارک‘‘ کی 20ویں سربراہی کانفرنس کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد اگرچہ کورونا وائرس کے خلاف ایک اجتماعی حکمت عملی تیار کرنا تھا‘ مگر اس کا انعقاد اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ اس میں پاکستان نے شرکت کی اور ''سارک‘‘ کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر اس عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی‘ خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے 5 اگست کے یکطرفہ اقدام کے تناظر میں دہلی کی ویڈیو کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کو دیکھا جائے تو یہ واقعہ خطے کے دو بڑے ممالک کے درمیان موجودہ جمود کو ختم کرنے کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کانفرنس کو خوش آئند قرار دینا چاہئے اور امید کرنی چاہئے کہ سارک کی اس کانفرنس کے بعد‘ جہاں رکن ممالک کو تنظیم کا چارٹر دو طرفہ تنازعات پر بات چیت کی اجازت نہیں دیتا‘ پاکستان اور بھارت باہمی کشیدگی ختم کرنے اور دو طرفہ بات چیت پر بھی آمادہ ہو جائیں گے۔ اگرچہ ابھی تک اس امکان کے کوئی آثار نہیں اور دونوں نے اس مسئلے پر سخت اور غیر لچک دار رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ مگر ماضی کی اگر بعض مثالوں کو پیش نظر رکھا جائے تو دہلی میں سارک کی ویڈیو کانفرنس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ بات چیت کا دروازہ کھلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
1990 کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ امور پر بات چیت کا سلسلہ مکمل طور پر جمود کا شکار تھا۔ تب خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر دو طرفہ مذاکرات کا جو سلسلہ جاری تھا‘ وہ گزشتہ چار سال سے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعطل کا شکار تھا‘ مگر 1997 میں مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں ''سارک‘‘ کی (9ویں) سربراہی کانفرنس کے دوران پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اندر کمار گجرال کے درمیان کانفرنس کی سائیڈ لائن پر غیر رسمی ملاقات میں اس تعطل کو ختم کرنے اور دو طرفہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا‘ یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سٹرکچرڈ ڈائیلاگ جسے عرف عام میں ''کمپوزٹ ڈائیلاگ‘‘ بھی کہتے ہیں‘ کی بنیاد پڑی۔ اس میکنزم کے تحت کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان ماہرین سے لے کر وزرائے خارجہ کی سطح تک کشمیر سمیت باقی سات تنازعات پر‘ جن میں سیاچن‘ سرکریک اور پانی کا مسئلہ بھی شامل تھا‘ باری باری دہلی اور اسلام آباد میں دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سلسلے کی بدولت فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا دوستی بس کے ذریعے دورۂ لاہور بھی عمل میں آیا‘ جس کے دوران انہوں نے 1940 میں قراردادِ پاکستان منظور ہونے کی جگہ یعنی مینارِ پاکستان پر بھی حاضری دی اور پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ مل کر ''اعلانِ لاہور‘‘ بھی جاری کیا‘ جس میں دونوں ملکوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن پیشتر اس کے کہ یہ عمل آگے بڑھتا‘ مئی‘ جون میں کارگل کی جنگ چھڑ گئی اور اکتوبر میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جولائی 2001 میں آگرہ میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور پاکستان کے نئے حکمران جنرل مشرف کے درمیان ملاقات ہوئی‘ مگر باہمی تعلقات میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ اس دوران دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر مسلح افراد کے حملے کا واقعہ پیش آیا۔ بھارتی حکومت نے الزام عائد کیا کہ یہ افراد پاکستان سے آئے تھے اور ان کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی بھارت نے کیل کانٹوں سے لیس ہزاروں کی تعداد میں فوجی پاکستان کی سرحدوں پر لا کھڑے کئے۔ جواب میں پاکستان نے بھی اپنے تمام تر سازوسامان کے ساتھ افواج بھارت کے مقابلے میں لا کھڑی کیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ ملٹری سٹینڈ آف ایک سال سے زائد عرصہ تک جاری رہا۔ بیرونی ممالک خصوصاً امریکہ کی مداخلت سے یہ خطرہ فوری طور پر تو ٹل گیا‘ مگر تعلقات بدستور کشیدہ رہے‘ کیونکہ دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا۔ اس تعطل کو توڑنے کیلئے اگرچہ بہت سے مملک‘ جن میں چین‘ یورپی یونین اور امریکہ بھی شامل ہیں‘ در پردہ کوششوں میں مصروف تھے‘ مگر نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں سارک کی گیارہویں سربراہی کانفرنس کے دوران صدر مشرف کا اپنی نشست سے اٹھ کر بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ ہینڈ شیک فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اس کے بعد جنوری 2004 میں اسلام آباد میں ''سارک‘‘ کی بارہویں سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے اور صدر مشرف کے ساتھ مل کر 6 جنوری 2004 کو وہ مشہور مشترکہ بیان جاری کیا‘ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تعطل کے شکار دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ بغیر کسی تعطل کے 2008 تک جاری رہا۔ اس کے بعد ممبئی حملوں کی وجہ سے تین سال تعطل کا شکار ہو کر دوبارہ 2011 میں شروع ہوا۔ اتار چڑھائو کے اس سلسلے کے باوجود پاک بھارت تعطل کو توڑنے میں ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنسوں کے سہولتی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ حالانکہ چارٹر کی رو سے رکن ممالک اپنے دو طرفہ جھگڑوں کو سارک میں زیر بحث نہیں لا سکتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کی ویڈیو کانفرنس اس معاملے میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔