کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو خوف اور سراسیمگی کی ایک فضا میں کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک جو مسائل عالمی سیاسی افق پر اہم توجہ کا مرکز تھے‘ وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک افغانستان کا مسئلہ بھی ہے‘ جس پر امسال 29 فروری کو امریکہ اور افغانستان کے مابین جنگ بندی‘ امریکی افواج کے انخلا اور ملک میں امن کے قیام کیلئے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اگرچہ اس معاہدے پر فریقین کے دستخطوں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر تعطل پیدا ہو گیا تھا اور آگے بڑھنے کی راہ مسدود ہو گئی تھی‘ لیکن افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برس سے زیادہ عرصہ سے جاری جنگ ختم کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا‘ کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی معاہدے کی توثیق کر دی تھی‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ اسے عالمی برادری کی بھی حمایت حاصل ہے‘ مگر افغانستان کی حکومت کی جانب سے طالبان قیدیوں کی غیر مشروط رہائی سے انکار کی وجہ سے یہ موقعہ بھی ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا تھا؛ تاہم کابل سے جاری ہونے والے ایک حالیہ اعلان سے‘ جس کے مطابق افغان حکومت نے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے تحت طالبان سے بات چیت کرنے کیلئے ایک 21 رکنی ٹیم تشکیل دی‘ یہ خطرہ ٹل گیا ہے‘ کیونکہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے اس اعلان کی افغان مسئلہ حل کرنے میں مدد دینے والے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی حمایت کی ہے۔ زلمے خلیل زاد کچھ عرصے سے کابل میں ہی مقیم تھے اور 29 فروری کے معاہدے پر عمل درآمد کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوششیں کر رہے تھے‘ لیکن ان کی یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو رہی تھیں۔ کیونکہ مسئلہ صرف طالبان قیدیوں کی رہائی کا ہی نہیں تھا‘ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور گزشتہ برس ستمبر میں ملک کے صدارتی انتخابات میں ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے امیدوار عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازعہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے‘ کیونکہ انٹرا افغان ڈائیلاگ‘ جس کا گزشتہ ماہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پہلا اجلاس ہونا تھا‘ کے راستے میں بڑی رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔ زلمے خلیل زاد نے دونوں میں مصالحت کرانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس پر امریکہ کو مداخلت کرنا پڑی اور سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے 23 مارچ کو کابل کا ہنگامی دورہ کیا اور صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں‘ لیکن معلوم ہوا کہ ان کی کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی‘ کیونکہ صدر غنی نے عبداللہ عبداللہ کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ انہیں اقتدار میں شریک کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ اس صورتحال پر سخت برہم ہے اور امریکی ذرائع کے مطابق سیکرٹری پومپیو نے صدر اشرف غنی کی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ان دو افغان رہنمائوں کے مابین مصالحت نہ ہو سکی تو امریکہ افغانستان کو دی جانے والی ایک بلین ڈالر سالانہ کی امداد روک لے گا۔ اس پر اگرچہ صدر اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان امریکہ کی امداد کے بغیر بھی گزارہ کر سکتا ہے‘ لیکن گزشتہ چند برسوں میں جس تیزی کے ساتھ افغان معیشت گری ہے اس کے پیش نظر صدر اشرف غنی نے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے لئے اپنی ٹیم کا فوری طور پر اعلان کر دیا۔
دوسری طرف افغان طالبان نے بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا۔ تب افغان طالبان کے ترجمان نے بتایا تھا کہ طالبان کا ایک چار رکنی وفد عنقریب بگرام کے فوجی اڈے پر طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر بات چیت کیلئے افغان حکومت سے ملاقات کرے گا۔ مبصرین کے مطابق یہ ایک اہم پیش رفت تھی کیونکہ افغان طالبان اب تک افغان حکومت کے کسی اہلکار سے ملاقات اور بات چیت سے مسلسل انکار کر رہے تھے۔ 2001 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ طالبان باقاعدہ اور سرکاری حیثیت سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت نے جس 21 رکنی ٹیم کا اعلان کیا‘ وہ افغان حکومت کے ارکان‘ سابقہ اور موجودہ سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے ممبران پر مشتمل ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس ٹیم کے اعلان کا خیر مقدم اور طالبان کی طرف سے افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے مسئلے پر بات چیت پر آمادگی کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے مابین قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات کے پہلے مرحلے میں 100 طالبان قیدی رہا کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ بدلے میں طالبان سکیورٹی فورسز کے 20 اہلکار رہا کریں گے۔ افغان حکومت اور طالبان‘ دونوں نے قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان قیدی بگرام ایئر بیس سے رہا کئے جائیں گے۔ یہ خبر اشارہ ہے کہ انٹرا طالبان ڈائیلاگ کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
مگر افغانستان میں حتمی طور پر امن کے قیام کی منزل تک پہنچنے میں یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ثابت ہو گا کیونکہ طالبان کی طرف سے اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عورتوں اور اقلیتوں کے ان تمام حقوق کا احترام کریں گے‘ جن کی اسلام نے اجازت دی ہے‘ افغان سول سوسائٹی خصوصاً خواتین ابھی تک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ طالبان کی طرف سے صدر اشرف غنی کی حکومت کو ایک جائز حکومت تسلیم کرنے سے مسلسل انکار اور 2001 سے قبل امارات اسلامی افغانستان کے نام سے قائم طالبان حکومت کی بحالی پر بدستور اصرار کی وجہ سے نہ صرف افغانستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ کیونکہ اپنے دور حکومت میں طالبان نے انتہائی سخت قوانین نافذ کر رکھے تھے اور اس دوران افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں روس‘ چین اور وسطی ایشیا کی ریاستیں شامل ہیں‘ سے بھاگ کر آنے والے انتہا پسندوں‘ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو طالبان نے نہ صرف پناہ دی بلکہ یہاں سے تربیت حاصل کرکے وہ اپنے ملکوں میں جا کر دہشت گردی کی وارداتوں میں حصہ بھی لیتے تھے۔ اس لئے نہ تو افغانستان کی نئی نسل‘ جس نے گزشتہ اٹھارہ سے زیادہ برسوں میں کھلے اور آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کرکے اپنی مرضی کے مطابق زندگیاں گزارنے کا حق حاصل کیا ہے‘ اور نہ ہی بین الاقوامی برادری‘ جس کا ہر رکن ملک گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے ہاتھوں بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھا چکا ہے‘ افغانستان کو ایک دفعہ پھر دہشت گردوں کے اڈے میں تبدیل ہونا برداشت کرے گی۔ طالبان کے غیر لچک دار رویے اور افغان سول سوسائٹی اور ہمسایہ ملکوں کے خدشات کے پیش نظر انٹرا افغان ڈائیلاگ نہ صرف مشکل اور پیچیدہ ہوں گے بلکہ طول بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس دوران 29 فروری کے معاہدے اور عارضی جنگ بندی کا کیا بنے گا؟ اس کا انحصار طالبان کے رویے پر ہو گا۔ کیا وہ امریکہ اور نیٹو کے مکمل انخلا کے بعد بھی افغان سرکاری افواج کے خلاف جنگ کا دائرہ محدود رکھیں گے یا پھر امریکیوں کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی افغان نیشنل آرمی اور پولیس پر یلغار کا اعلان کرکے ویت نام کی تاریخ دہرانے کی کوشش کریں گے؟ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ مگر طالبان کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ 1996 سے 2001 تک کابل میں ان کی حکومت کو دنیا کے صرف تین ممالک نے تسلیم کر رکھا تھا۔ اٹھارہ سال گزرنے کے بعد بھی اگر طالبان نے اپنے موقف میں لچک پیدا نہ کی اور افغان سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کو روندتے ہوئے بزور طاقت حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں پہلے سے کہیں زیادہ مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مخالفت افغان سول سوسائٹی‘ افغان حکومت کی طرف سے اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے ہو سکتی ہے‘ کیونکہ افغانستان میں امن کے امکانات بڑھانے میں بین الاقوامی برادری خصوصاً ہمسایہ ممالک نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔