کورونا وائرس کی وبا کے باعث عالمی سطح پر ایسی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں‘ جو نہ صرف دور رس مضمرات کی حامل ہیں بلکہ چند ہفتے قبل تک ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً چین اور امریکہ کے مابین تجارت‘ کرنسی اور سائوتھ چائنا سی (South China Sea) کے مسائل پر اختلافات نے دونوں ملکوں کے درمیان محاذ آرائی جیسی کیفیت پیدا کر رکھی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ انڈو پیسیفک کے نام سے چین مخالف اتحاد میں جس طرح شامل کیا‘ اور پھر بحر ہند کے مشرقی حصے میں ''مالا بار‘‘ کے نام سے ہر سال بحری مشقوں کا اہتمام کر کے کشیدگی میں جس طرح اضافہ کیا‘ اس سے دونوں بڑے ملکوں میں محاذ آرائی نے اور بھی شدت اختیار کر لی تھی۔ پھر کورونا وبا کے آغاز پر امریکی صدر ٹرمپ نے جس طرح چین کا تمسخر اڑایا‘ بلکہ وائرس کو صرف چین کا ہی مسئلہ قرار دے کر اس سے منسوب کرنے کی کوشش کی‘ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات نا صرف پہلے کے مقابلے میں زیادہ کشیدہ ہوئے بلکہ آپس میں الزام بازی بھی شروع ہو گئی تھی؛ تاہم جب وبا نے امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سپر پاور کا صدر ہونے کے باوجود ٹرمپ اپنے آپ کو بے بس پانے لگے تو چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب کو ٹیلی فون کر کے نا صرف امریکہ میں وبا کے ہاتھوں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا‘ بلکہ مدد کی پیشکش بھی کی۔ اس وقت امریکہ میں وبا پھیلنے کی وجہ سے میڈیکل سپلائز مثلاً ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی لباس‘ ماسک اور وینٹی لیٹرز کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے‘ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے پورا کرنے میں بھی چین نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ کی ایک ریاست نے ڈاکٹروں کے استعمال کے لیے ضروری ماسکس کی سترہ لاکھ کی ایک کھیپ چین سے درآمد کی ہے۔
اسی طرح گزشتہ چار برسوں سے کریمیا پر بزور قوت قبضہ کرنے اور پھر اسے اپنا حصہ قرار دینے پر روس اور امریکہ کے مابین کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ امریکہ نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں‘ جو اب تک موجود اور برقرار ہیں‘ لیکن روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے امریکہ کو کورونا وائرس کی آفت میں گھرا دیکھ کر ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اپنے ملک کی طرف سے امداد کی پیشکش کی۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے نا صرف پوٹن کے اس اقدام کو سراہا بلکہ روسی صدر کی طرف سے امداد کی پیشکش قبول بھی کر لی۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل بھارت اور چین کے مابین تعلقات خوش گوار نہیں تھے‘ بلکہ بھارت میں غیر ذمہ دار اور انتہا پسند عناصر دونوں ملکوں کے مابین تجارت کے خاتمے اور بھارت سے چینی باشندوں کو نکالنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے‘ مگر اب بھارت نے خود پہل کر کے اس وبا پر قابو پانے کے لئے چینی تجربے سے مستفید ہونے کا فیصلہ اور اس حوالے سے چینی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا بھر کے ممالک آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کورونا وائرس کی موذی بلا کا مقابلہ کرنے کیلئے آپس میں تعاون کر رہے ہیں‘ کیونکہ یہ صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے اور سب ملکوں کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
یہ احساس اور اس کے تحت پیش رفت ہمیں بین الاقوامی سطح پر تو نظر آ رہی ہے‘ لیکن پاکستان میں قومی سطح پر اس طرح کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘ اور حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کی کیفیت بدستور موجود ہے۔ ایک طرف تحریکِ انصاف کی مرکزی حکومت کے ترجمان برملا اعتراف کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کے چیلنج کا مقابلہ کرنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں‘ لیکن دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں تو وہ بغیر جواب دئیے رخصت ہو جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی طرف سے بلائی گئی پارلیمانی سربراہوں کی ویڈیو کانفرنس سے خطاب کے بعد بھی وزیر اعظم دیگر شرکا کی آرا سنے بغیر اٹھ کر چلے گئے تھے۔ اس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی شریک تھے‘ اور جناب وزیر اعظم کے اس رویے پر انہوں نے بھی احتجاج کیا۔ اس طرح ایک اہم مقصد کے لئے بلائی گئی یہ کانفرنس بے سود ثابت ہوئی‘ حالانکہ تمام حلقوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح 2014 میں دہشت گردی کے خلاف حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں نے ایک قومی ایکشن پلان تشکیل دیا تھا‘ اسی طرز پر کورونا وائرس کا قلع قمع کرنے کے لئے بھی ایک قومی ایکشن پلان تیار کرنا چاہئے تاکہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پوری قوم متحد ہو اور کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں آ جائے۔ پارلیمانی رہنمائوں کی ویڈیو کانفرنس اسی مقصد کے لئے بلائی گئی تھی‘ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس جدوجہد میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے‘ حالانکہ کورونا وائرس کی وبا پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایک طرف وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جو طبی سہولتیں اور سامان درکار ہے‘ اس کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے بے کار ہونے والے غریب خاندانوں کو راشن پہنچانے کے مسائل الگ ہیں۔ حالات اتنے توجہ طلب ہو چکے ہیں کہ خود وزیر اعظم نے بھی ان کی سنگینی کا اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے اور لوگوں کو پہلی دفعہ کہا ہے کہ اس وبا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے‘ مگر اپوزیشن کے بارے میں رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد جب ان سے اپوزیشن کے ساتھ مصالحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسے ایک دفعہ پھر خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے اندر موجود بحران کی آڑ میں کسی کو اپنی کرپشن چھپانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین عدم تعاون کی اس فضا کا کورونا وائرس کی وبا سے متاثرہ خاندانوں کے لئے ملک بھر میں جاری فلاحی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اس وقت تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور فلاحی ادارے لاک ڈائون سے متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں‘ مگر کوآرڈی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہو رہے ہیں اور متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی راشن کی عدم فراہمی کی شکایت کر رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعاون کی جگہ کشیدگی کی فضا کی وجہ سے وفاق اور صوبے بھی ایک پیج پر نہیں ہیں‘ خصوصاً سندھ اور مرکز کے مابین کھچائو‘ جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے سے پہلے سے چلا آ رہا ہے‘ کی وجہ سے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کیلئے کی جانے والی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کے علاج کیلئے درکار سازوسامان کی کمی ہر سطح پر محسوس کی جا رہی ہے‘ مگر صوبوں میں اس کی کمی زیادہ نمایاں ہے اور اس کی وجہ سے نا صرف سندھ بلکہ بلوچستان‘ کے پی کے‘ پنجاب اور گلگت بلتستان میں بھی ڈاکٹروں کی طرف سے شدید احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صحت کا محکمہ صوبوں کی تحویل میں دے دیا گیا تھا‘ مگر صوبوں کو شکایت ہے کہ اس اہم شعبے کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہیں وفاق کی طرف سے مناسب مقدار میں فنڈز مہیا نہیں کئے جاتے۔ اس کی وجہ سے صوبوں کو اپنے وسائل میں سے‘ جو کہ پہلے ہی محدود ہیں‘ صحت پر اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود صوبے اب بھی مرکز کے محتاج ہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل حکومت اور اپوزیشن کے ایک پیج پر آنے میں مضمر ہے اور جتنی جلدی اسے عملی شکل میں لایا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔