اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں افغان امور کے چند ممتاز ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگیں صورتحال کے پیشِ نظر افغان طالبان اور افغان حکومت کو جنگ کے بجائے امن اور تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے‘ کیونکہ اس خطرے کا ‘ جو دونوں فریقوں کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے‘ مل کر ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے‘ بلکہ مقررین نے کورونا کی وبا کو افغانستان میں متحارب دھڑوں کیلئے امن کی جانب بڑھنے کا ایک موقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو لڑائی میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جانے سے پہلے‘ کورونا وائرس کا شکار ہو جائیں گے‘ اس لئے کہ یہ وائرس کسی میں تمیز نہیں کرتا‘ بلکہ انسانوں پر حملہ آور ہوتا ہے‘ خواہ اس کا تعلق سرکاری فوج سے ہو یا طالبان سے۔
افغانستان میں گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دھڑوں سے اس قسم کی اپیل نیٹو نے بھی کی ہے۔ 2001ء کے بعد افغانستان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت جس غیر ملکی فوج کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی‘ اس میں امریکہ کے علاوہ نیٹو کے رکن ممالک کے بھی فوجی دستے شامل تھے‘ اور اس سال فروری کے آخر میں امریکہ اور طالبان کے مابین ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر جو سمجھوتہ ہوا تھا‘ اس کی حمایت نیٹو نے بھی کی تھی۔ اسی طرح او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی افغان حکومت اور طالبان سے اپیل کی گئی ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر جنگ بندی پر راضی ہو جائیں ۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ امریکہ طالبان معاہدے پر عمل درآمد کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں طالبان اور سرکاری فوج ایک دوسرے پر حملے بند کریں۔ روس اور چین‘ جن کے افغان حکومت اور طالبان‘ دونوں سے خوشگوار تعلقات ہیں‘ کی طرف سے بھی افغانستان میں جنگ بندی پر زور دیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کے لئے اپیلوں کا رخ زیادہ تر افغان طالبان کی طرف ہے کیونکہ افغان حکومت شروع سے ہی جنگ بندی پر راضی تھی‘ بلکہ اس دفعہ بھی رمضان کے آغاز پر صدر اشرف غنی کی حکومت نے طالبان کو جنگ بندی کی پیشکش کی تھی‘ مگر طالبان نے نہ صرف اس پیشکش کو مسترد کر دیا بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں واقع سرکاری فوج کی چوکیوں اور ٹھکانوں پر حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ ان حملوں میں سرکاری فوج کے متعدد جوانوں کے علاوہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ان اپیلوں کا مثبت جواب دیں گے اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے؟ اگر ہم ماضی قریب میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ ایسا کیوں ہے؟ اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ اس وقت جنگ میں طالبان کا پلہ بھاری ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت دفاعی جنگ لڑ رہی ہے اور طالبان ملک کے کسی حصے میں ‘ جہاں چاہیں اور جب چاہیں سرکاری فوج کی چوکیوں پر حملہ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ان حملوں میں تیزی آئی ہے اور سرکاری فوجوں کے جانی نقصان میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کو یقین ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل انتظامیہ کی پوزیشن اور بھی کمزور ہو جائے گی۔ ان حالات میں طالبان کیلئے جنگ بندی میں فائدہ ہو سکتا ہے؟ ویسے بھی پٹھانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنی جلدی وہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ مدت کے بعد صلح کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے طالبان کی طرف سے جنگ بندی کی اپیلوں کا مثبت جواب آنے کی کوئی توقع نہیں اور افغانستان میں خونریزی جاری رہے گی۔ یہ صرف اس صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت اور اس کی فوج‘ دونوں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیںاور اقتدار طالبا ن کے حوالے کر دیں۔ وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں‘ مگر اس سے انہوں نے کوئی امید وابستہ نہیں کر رکھی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ اتنا طول پکڑ سکتا ہے تو انٹرا افغان ڈائیلاگ‘ جس کاابھی تک نہ کوئی ڈھانچہ واضح ہے اور نہ کوئی طریقہ کار طے ہوا ہے‘ سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ طالبا ن اس میں شرکت کریں گے مگر اس کے فیصلوں کا انتظار نہیں کریں گے‘ بلکہ اس سے قبل سرکاری افواج پر پے در پے حملوں کے ذریعے اسے اتنا کمزور کر دیں گے کہ کابل پر قبضہ کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے‘ مگر بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ 1996ء میں ایسا ممکن تھا‘ مگر 2020ء میں حالات مختلف ہیں۔ 1996ء میں کابل میں برہان الدین ربانی کی پارٹی‘ جمعیت اسلامی‘ کی حکومت تھی اور احمد شاہ مسعود فوجوں کے کمانڈر تھے۔ طالبان کی یلغار کے آگے احمد شاہ مسعود نے کابل خالی کر دیا اور وادیٔ پنج شیر میں اپنی فوجوں کے ساتھ پناہ لے لی‘ اور وہاں سے 9 سمبر 2001ء تک وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کرتے رہے (9 ستمبر 2001ء کو احمد شاہ مسعود ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے) صدر اشرف غنی کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں کہ وہ کابل سے پسپا ہو کر کسی محفوظ علاقے میں قلعہ بند ہو کر طالبان کے خلاف مزاحمت جاری رکھ سکیں‘ بلکہ ان کے چند بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کابل میں رہ کر طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی طرف سے طالبان کو کچھ عرصہ قبل بھیجے جانے والے ایک بیان کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اس بیان میں ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان کو یاد دلایا تھا کہ وہ بھی ان کی طرح مسلمان اور پشتون ہیں ‘ اور میدان سے بھاگنے والے نہیں۔ اشرف غنی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پشتونوں کے ایک ایسے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لوگ اپنی ضد کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ایک دفعہ اگر کسی بات پر ڈٹ جائیں تو پھر پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ صدر اشرف غنی کے حالیہ اقدامات میں ان کے اس مزاج کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ طالبان کی دھمکیوں اور امریکی مخالفت کے باوجود انہوں نے صدارتی انتخابات کروائے اور کامیاب ہو کر سابق چیف ایگزیکٹو اور صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کو اقتدار میں شریک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان کی موجودہ نسل ایک ایسے سیاسی و سماجی اور معاشی ماحول میں پلی اور جوان ہوئی ہے‘ جو طالبان کے نظام ِ ریاست اور حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ اس عرصہ کے دوران افغانستان کے اندر سیاسی‘ انتظامی اور ثقافتی شعبوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں‘ انہیں یک دم کیسے منسوخ کیا جا سکتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں خانہ جنگی اور مجاہدین کی باہمی چپقلش کی صورت میں جو خلفشار بپا تھا‘ افغانستان کے دو انتہائی قریبی ہمسایہ ممالک کو چھوڑ کر باقی تقریباً ساری دنیا کا رویہ بے اعتنائی پر مبنی تھا‘ مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ افغانستان کا موجودہ مسئلہ صرف امریکہ اور طالبان کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے اب دیگر ہمسایہ ممالک‘ جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں‘ کے قومی سلامتی کے اہم مفادات بھی وابستہ ہیں۔ اس لئے وہ نہ صرف طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مندرجات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ‘بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ معاہدہ امن کے نتیجے میں افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل پائے ‘جو ملک کی تمام سیاسی قوتوں کی نمائندہ ہو۔ اگر طالبان نے طاقت کے زور پر افغانستان کے باقی سیاسی دھڑوں کو بلڈوز کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور ماراتِ اسلامیہ افغانستان کو بحال کیا تو انہیں نا صرف اندرونی‘ بلکہ بیرونی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔